(میری کہانی)

میں ڈاکٹر بگھوانداس بیٹا مینگھراج پٹھئی ہندو، پتہ ایمپائر روڈ لاڑکانہ کا، کیھ رہا ہوں کے میں بچوں کا اسپیشلسٹ ڈاکٹر ہوں اور کچھ سال پہلے میں ریشم گلی لاڑکانہ میں رہتا تھا، جہاں مجھے بچوں کے علاج کرنے کے لیئے سینٹر تھا اور اس وقت میں ایمپائر روڈ لاڑکانہ میں اپنی فیملی کے ساتھ رہتا ہوں، جہاں مجھے بچوں کے علاج کے لیئے” پٹھئی میڈیکل اینڈ ویکسینیشن سینٹر” ہے، مجھے اور میری بیوی ڈاکٹر بھگونت دیوی کی زرعی زمیں دیھ واھ نبی بخش لاڑکانہ میں ہے۔ جو 14 سروے نمبر پے مشتمل ہے، جسکے سروے نمبر 60/1, 60/2 84/2, 94/2, 55/1, 55/2, 56/1, 57/1, 59/1, 96, 95/1, 95/2, 94/1 اور 92 ہیں جن کی قل ایراضی 30-55 ایکڑ ہے اور اس زمین کا قبضہ بھی مجھے اور میری بیوی کو ملا ہوا تھا، اس کا یے رکارڈ مختیارکار آفیس لاڑکانہ میں دیھ فارم VII-B میں انٹری نمبر 3794 تاریخ 1997-6-11، 3795 تاریخ 1997-6-11 اور 3715 تاریخ 1997-4-16 کے تحت داخل ہے اور میرے حصے کی زمین زرعی پاس بوک نمبر 423545 تاریخ 2001-05-23 میں بھی موجود ہے۔ یے زمین میں نے اور میری بیوی نے اس لیئے خرید کی تھی کے ہم اس زمین پر ایک پرائیویٹ میڈیکل کالیج اور اسپتال پٹھئی میڈیکل کالیج اینڈ ھاسپیٹل لاڑکانہ بنانی چاہی۔ اور میں اپنی مذکورہ زمین کا رکارڈ دیھ فارم Vii-B ہر سال چیک کرتا رہتا تھا، جو سال 2007 تک بھی میرے نام پے داخل تھا، اور مجھے فیبروری 2006 میں پتہ چلہ کہ میری مذکورہ زمین کا کسی شخس نے جھوٹا اور جعلی مختیارنامہ بنوایا ہے. یے خبرعام اطلاع اخبار روزانہ، عوامی آواز، کراچی کی 15 اور 17 فیبروری 2006 میں چھپائی۔ پھر جب میں نے سب رجسٹرار آفیس لاڑکانہ سے معلوم کروایا تو پتہ چلا ک میری مذکورہ زمین جعلی مختیارنامے کے آدھار پر بیچ دی گئی ہے، میں نے اس جھوٹے اور جعلی مختیارنامے کی فوٹو اسٹیٹ کاپی حاصل کی جس میں میری رہائش ریشم گلی کی لکھی ہوئی تھی پھر میں نے جعلی سیل ڈیڈ کی فوٹو اسٹیٹ کاپی حاصل کی جس سے پتہ چلا کہ جوابدار موتی رام ابن صدورو مل ہندو، پتہ کرما باغ محلہ لاڑکانہ فراڈ اور جعلسازی کر کے اوپر ذکر کردا زمین میں میرے حصے کی 04-48 ایکڑ ایراضی کا ایک جھوٹا اور جعلی، ان رجسٹرڈ، بغیر ٹریزری اسٹیمپ اور دستخط کے نکلا ہوا اور بغیر کسی اسٹیمپ وینڈر نام، اور دستخط کے نکلا ہوا 500 روپیوں کے اسٹیمپ پیپر کے بغیر کسی پٹیشن رائیٹر یا بانڈ رائیٹر کے نام اور دستخط کے تیار کردا اور میری ایک تصویر جو کسی دوسرے ڈاکومینٹ سے اتری استعمال کرکے، میری جعلی لکھت اور دستخط کر کے وہ جعلی اور جھوٹا مختیارنامہ عام تاریخ 2001-07-26 جو دوسرے جوابداروں سے مل کر اور جعلسازی کر کے تیار کیا ہے اور جوابدار موتی رام نے وہ جھوٹا اور جعلی مختیارنامہ عام غیر قانونی طریقے سے اصل ظاھر کیا اور استعمال کر کے میرے حصے کی مذکورہ زرعی زمین جوابدار لعل بخش بن محمد ایوب مگریو پتہ گاؤں مگریو تعلقہ ڈوکری ضلعہ لاڑکانہ کو تاریخ 2003-05-01 پے بیچ کر دی ہے اور میرے دستخط سے ایسی سیل ڈیڈ سب رجسٹرار آفیس لاڑکانہ میں رجسٹر کر کے دی ہے، اور اس زمین کی رقم ہڑپ لی ہے اور جوابدار لعل بخش مگریو میری ذکر کردا زمین مذکورہ جعلی اور جھوٹے مختیارنامے عام کی تحت تیار کردا جعلی سیل ڈیڈ کے آدھار پے مختیارکار آفیس لاڑکانہ میں دیھ واھ نبی بخش کے فارم Vii-B میں انٹری نمبر 6421 تاریخ 2004-02-11 کے تحت داخل رکھرائی ہے۔ پھر میں مذکورہ جوابدار موتی رام کے خلاف قانونی کاروائی کے لئے کوشش کرتا رہا پر جوابدار موتی رام کے گھر چھوڑ جانے پر اور کسی نامعلوم پتے پر چھپ جانے کی وجہ سے کوئی بھی قانونی کاروائی نہ ہو سکی پھر جوابدار موتی رام شھر میں نظر آیا تو میں نے معلوم کروایا تو پتہ چلا کے جوابدار موتی رام بھار شاہ پیر روڈ پر رھائش پدر ہے، تو تاریخ 2014-06-16 پے میں نے مارکیٹ تھانہ میں ایسی فریاد نمبر 2014/69 گناہ زیر قلم 420,468,471,427,34P.P.C جوابدار موتی رام لعل بخش مگریو اور دوسرے نامعلوم جوابداروں کے خلاف میری زرعی زمین جعلسازی سے جھوٹے مختیارنامے کے تحت بیچی اور مجھے تقریبا دو ارب روپیوں کا نقصان پھچانے کی فریاد داخل کی۔ مذکورہ کیس کی جانچ SIP نظیر احمد منگی PS SIO مارکیٹ کے حوالے ہوئی پھر تاریخ 2014-06-17 پے میری مذکورہ FIR جناب سول جج اور جوڈیشل مئجسٹریٹ II لاڑکانہ کی عدالت میں پیش کی گئی جس نے ایسا آرڈر تاریخ 2014-06-17 پے جاری کیا تو “جیسے کے اس کیس میں سرکاری ملازموں کی طرف سے رکارڈ کی تبدیلی ہوئی ہے اس لیئے قلم 471، 420 اور 468 کرمنل لا امینڈمینٹ ایکٹ 1958 کے تحت شیڈول گناھ ہیں۔ جو آنریبل اسپیشل جج کے سننے کے قابل ہیں۔ اس لیئے یے FIR عدالت جناب اسپیشل جج اینٹیکرپشن میں پیش کی گئی اور بعد میں قلم (2) 5 اینٹیکرپشن ایکٹ بھی شامل کیا گیا پھر دوران جانچ تاریخ 2014-06-16 پے میں نے کیس کے اوپر نام والے تفتیشی آفیسرز کو جگھئے واردات دہ مشیروں (1) نثار احمد بن گاہی خان بھٹو پتہ محلہ کھوڑا نؤدیرو نزد صدر ھاؤس (2) ذوالفقار علی بن نواب خان کھکھرانی پتہ گاؤں مینگھراج لاڑکانہ کے سامنے دکھائی، جس نے اس وقت ایسا جس نے بروقت ایسا مشیر نامہ کیس کے ضروری کاغذات کو پیش کرنے کا اوپر ذکر کیئے ہوئے مشیر گواہوں کی موجودگی میں ان لوگوں کی دستخط سے تیار کیا اور پھر اسی تاریخ پر میری بیوی ڈاکٹر بھگونت دیوی تفتیشی آفیسر کے پاس P.S پر حاضر ہوکر اپنا بیان زیر قلم 161 کپک قلم بند کروایا اور کیس کے زیادہ کاغذات اوپر جو مشیر بتائے ان کے روبرو جانچ آفیسر کے پاس پیش کرنے کا دونوں گواہوں کی موجودگی میں ان کی دستخط سے تیار کیاجو میری بیوی نے مذکورہ بیان میں اپنے موئقف کی حمایت کرتے ہوئے زیادہ ظاہر کیا کے میری مذکورہ زمیں جوابدار موتی رام جعلی مختیار نامے سب رجسٹرار اور مختیار کار لاڑکانہ اور دوسرے واسطیدار عملداروں کے ساتھ مل کر رکاڑد میں ہیرافیری کر کے جوابدار لعل بخش مگریو اور جوابدار بدر ساریو کے نام سے بیچی گئی ہے جب کے جوابدار معشو ق علی جتوئی بیٹا گھنو خان جتوئی کو شہر کا ہر ایک آدمی جانتا ہے کے وہ ہر شہر کے لینڈ معافیہ ہیں جو انھوں نے خود ثابت کیا ہے کے وہ تمام بڑے اثر رسوخ والے لینڈ معافیہ کے آدمی ہیں کیوں کے ان دونوں جوابداروں نے میری مذکورہ زمین جعلی اور نقلی مختیار نامے کے آدھار پر غیر قانونی طریقے سے ہتھیائی ہے جیسے کے جوابدار گھنو خان جتوئی جوابدار معشوق علی جتوئی تمام اثررسوخ اور سیاسی اور ان کے پیچھے بڑے لوگوں کا ہاتھ ہے جن کی پہنچ منسٹر لیول تک ہے جس کی وجہ سے اس کیس میں میری بیوی کی طرف سے نامزدگی کے باوجود کیس کے تفتیشی آفیسر نے گرفتار نہیں کیا اور نا صرف ان جوابداروں کو پر دوسرے نامزد جوابداروں کو بھی تفتیشی آفیسروں نے گرفتار نہیں کیا اور کیس کی ڈائری بھرتی گئی اور کیس کی جانچ دوسرے تفتیشی آفیسر نام اظہر علی منگی کو ملنے کے باوجود بھی ان جوابداروں کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ اور میں وہ ہی ایک جیسا بھانہ لکھا گیا جب کے مذکورہ جوابدار شہر کے مشہور آدمی ہیں اور اپنی رہائش اور اپنے کاروبار کی جگہ پر موجود رہتے ہیں جب کے ان کے سیاسی اثر رسوخ اور سابت قانون کے وزیر کی طرف داری کی وجہ سے ان کو گرفتار نہیں کیا گیا اور کورٹ سے ضمانت قبل از گرفتار کرنے کا موقعہ فراہم کیا گیا جو تاریخ 2014-06-28 پر جوابدار موتی رام عدالت جناب اسپیشل جج اینٹیکرپشن لاڑکانہ کے اپنی عبوری ضمانت قبل از گرفتاری کرائی اور تاریخ 2014-07-05 پر عدالت نے کاغذات جمع کروائے اور عدالت میں P.S SHO مارکیٹ کو ایسا لیٹر نمبر 2014/284 لاڑکانہ تاریخ 2014-07-05 جوابدار موتی رام کو گرفتار نا کرنے کا جاری کیا جس کی ضمانت درخواست نمبر 2014/61 ہے جو اس حکم میں جوابدار موتی رام کو عدالت نے پابند کیا کے وہ تفتیشی آفیسر کے پاس پیش ہوکر جانچ میں شامل ہو پر جوابدار موتی رام مذکورہ حکم کی خلاف ورزی کر کے جوابدار گھنو خان جتوئی اور جوابدار معشوق علی جتوئی کے کہنے پر تفتیشی آفیسر کے پاس پیش نہیں ہوا جو میرے جوابدار موتی رام کے اس قدم کے خلاف ضمانت خارج کرنے کے لیئے عدالت میں ایسی درخواست 2014-08-05 پر داخل کی جو جوابدار معشوق علی جتوئی تاریخ 2014-07-26 پر اپنی درخواست نمبر 2014/87 کے ذریعے عدالت سے عبوری ضمانت قبل از گرفتاری کروائی جو جوابدار گھنو خان جتوئی ایسی ضمانت کی درخواست نمبر 2014/88 کے ماتحت تاریخ 2014-7-26 پر عبوری ضمانت قبل از گرفتاری کروائی جو بعد میں دوسرے جوابدار لعل بخش مگریو اور جوابدار بدرالدین ساریو نے بھی ایسی عبوری ضمانت قبل از گرفتاری عدالت میں سے حاصل کی جو مذکورہ جوابدار گھنو خان جتوئی اور معشوق علی جتوئی میرے مذکورہ کیس سے ہاتھ اٹھانے اور پریشر اور ہراساں کرنے کے لیئے مجھے اور میرے خاندان کو بدنام کرنے اور تکلیف دینے جوابدار موتی رام اور اپنے بیٹے ہریش کمار کو استعمال کیا اور ان کے تذلیل آمیز بدنام کرنے اور تکلیف دینے اور جھوٹے اور بے بنیاد الزام بیان احتجاج اور اپیل اپنے اخبار روزانہ فاسٹ ٹائیم لاڑکانہ کی تاریخوں 2014-07-20، 2014-06-24، 2014-07-19، 2014-07-25، 2014-07-24، 2014-07-23 اور 2014-07-27 پر فرنٹ پیج پر بڑی سائیز میں چھپایا اور شایع کیا گیا اور مذکورہ جوابداروں نے مجھے ہراساں کرنے اور پریشان کرنے مذکورہ کیس سے ہاتھ اٹھانے کے لیئے جوابدار موتی رام کو استعمال کر کے ان کے بیٹے ہریش کمار کے ذریعے میرے خلاف میرے بیٹے ڈاکٹر راکیش میرے ملازم احمد علی کھکھرانی ، میرے کسان اور میرے شاہد ذلفقار علی کھکھرانی اور میرے چوکیدار نظیر احمد کے خلاف عدالت جناب سیشن جج اور جسٹس آف امن لاڑکانہ میں ایک درخواست نمبر 2014/246 تاریخ 2014-06-28 زیرقلم VII AFB – 22 کپک داخل کروائے جس نے ہمارے خلاف ایک بلکل جھوٹا اور بے بنیاد واقعہ دکھاتے ہوئے P.S SHO مارکیٹ کو ایسے حکم ہمارے خلاف FIR داخل کروانے کا جاری یا داخل کروانے کے لیئے عرض کیا گیا جو مذکورہ SHO کی رپورٹ کے مطابق ایسا کوئی بھی واقع نہیں ہوا ہے اور درخواست گذارش ہریش کمار اپنے والد موتی رام کو گرفتاری سے بچانے کی خاطر ایسی جعلی درخواست کی ہے ۔ اور مذکورہ جگہ واردات P.S دڑی تھانے کی حد میں ہے۔ اور وکیلوں کے بحث کے بعد عدالت میں مذکورہ درخواست 2014-08-12 پر خارج کردی۔ اس کے بعد جوابدار گھنو خان جتوئی اور معشوق علی جتوئی جوابدار موتی رام کو استعمال کرکے ہائے کورٹ آف سندھ سرکٹ کورٹ لاڑکانہ میں اپنے مذکورہ کیس کے تفتیشی آفیسر نام نظیر احمد منگی میرے اور دوسروں کے خلاف میری مذکورہ F.I.R خارج اور پروٹیکشن کے لیئے بلکل جھوٹی اور بے بنیاد آئینی درخواست نمبر D-810/14 تاریخ 2014-07-16 داخلا کروائی تاکے مجھے پریشرائیز کر سکیں جو عدالت میں زیر سماعت ہے اس کے بعد حاجی گھنو خان جتوئی اور جوابدار معشوق علی جتوئی جوابدار موتی رام کے ذریعے تاریخ 2014-08-05 پر ایک درخواست نمبر 14/5/29 زیر قلم 22-A & B کپک عدالت جناب سیشن جج اور جسٹس آف پیس لاڑکانہ میں داخلا کروائی جس میں دوبارہ ایک جھوٹا اور بے بنیاد واقعہ دکھاتے میرے اور میرے بیٹے ڈاکٹر راکیش کمار میرے اوپر بتائے گئے نام والے ملازم ، کسان، شاہد اور چوکیدار کے خلاف F.I.R داخل کرنے کے لیئے P.S SHO دڑی کو حکم جاری کرنے کا عرض کیا جو P.S SHO دڑی کی ایسی رپورٹ کے مطابق ایسا کوئی بھی واقعہ پیش نہیں آیا اور قبائلی تکرار چل رہا ہے، اور زمینی کیس چل رہا ہے۔ جو درخواست گذار مخالفوں کو پریشرائیز کرنے کے لیئے ایسا جھوٹا واقعہ بنایا ہے اور وکیلوں کے بحث مباحثے کے بعد عدالت میں ایسے درخواست تاریخ 2014-08-08 پر خارج کر دیا اس کے بعد مذکورہ جوابدار گھنو خان جتوئی اور معشوق علی جتوئی ایک دفعا دوبارا موتی رام کو استعمال کر کے میرے ، میرے بیٹے، میرے مذکورہ ھاری اور چوکیدار کے خلاف F.I.R داخل کروانے کے لیئے P.S SHO کو ایسا حکم جاری کرنے کے لیئے آئین درخواست نمبر 2014/861-S تاریخ 2014-08-29 ہائے کورٹ آف سندھ سرکٹ کورٹ لاڑکانہ میں داخل کروائی جو عدالت اپنے حکم تاریخ 2015-09-07 پر خارج کر دیا جو بعد میں جوابدار گھنو خان جتوئی اور جوابدار معشوق علی جتوئی ، ہریش کمار بیٹا موتی رام کو استعمال کر کے مجھے پریشرائیز کرنے کے لیئے میرے خلاف، میرے بیٹے ، کمدار شاہد اور چوکیدار کے خلاف عدالت جناب سول جج اور جوڈیشنل مئجسٹریٹ لاڑکانہ میں ایک جھوٹے ڈئریکٹر کمپلینٹ نمبر 2014/16 میں داخل کروائی جس میں ایک جھوٹا اور بے بنیاد واقعہ دکھایا گیا ہے جو تاریخ 2014-12-04 پر معزز عدالت میں رد کیا گیا، جو جوابدار گھنو خان جتوئی اور جوابدار معشوق علی جتوئی نا صرف جوابدار موتی رام اور ان کے بیٹے ہریش کمار کو استعمال کرکے ان کے ذریعے اوپر ذکر کیا گیا جھوٹا اور بے بنیاد توہین آمیز دل دکھانے اور بدنام کرنے والے الزامات اور بیان اور احتجاج اپنی مذکورہ اخبار میں شایع کیا اور اوپر ذکر کیئے گئے جھوٹے کیس داخل کروانے پر جوابدار معشوق علی جتوئی خود بھی ایسا جھوٹا کیس ہائے کورٹ آف سندھ سرکٹ کورٹ آف پیس لاڑکانہ میں داخل کیا جس میں ایک کرمنل مسلینیس ایپلیکیشن نمبر 189 سال 2014 تاریخ 2014-08-20 پر مذکورہ کیس کی تفتیشی آفیسر نظیر احمد منگی میرے خلاف اور دوسروں کے خلاف مذکورہ FIR کواش کرنے اور پروٹیکشن کے لیئے داخل کروائی جو معزز عدالت میں زیر سماعت ہے۔ جب کے جوابدار معشوق علی جتوئی، تاریخ 2014-08-22 پر ایک جعلی آئینی درخواست نمبر 2014/834 P.S SHO بقاپور اور میرے خلاف حراسمینٹ کی C.P ہائے کورٹ آف سندھ سرکٹ کورٹ لاڑکانہ میں داخل کرائی جو عدالت اپنے آرڈر تاریخ 15-09-09 پر خارج کر کے چھوڑدی، جو جوابدار گھنو خان جتوئی اور جوابدار معشوق علی جتوئی مجھے زیادہ ہراساں کرنا اور پریشر ڈالنا اور اپنے مذکورہ اخبار میں کام کرتے اندن ملازم نام کے منیر حسین بھٹی کے ذریعے عدالت جناب سیکنڈ جوڈیشنل مئجسٹریٹ لاڑکانہ میں ایک بلکل جھوٹے کمپلینٹ نمبر 2014/02 میرے خلاف ایک بلکل جھوٹا اور بے بنیاد واقعہ بتاتے ہوئے داخل کروایا۔ جو معزز عدالت میں اپنے آرڈر تاریخ 2015-03-05 کے تحت رد کردی جو جوابدار گھنو خان جتوئی اور جوابدار معشوق علی جتوئی، جوابدار موتی رام، جوابدار لعل بخش مگریو، جوابدار بدرالدین ساریو، منیر حسین بھٹی اور محمد اسلم شیخ آپس میں ملے ہوئے ہیں اور ایک ہی سلسلے کی کڑی ہیں۔ جو ہمیشہ ایک دوسرے سے لاتعلقی کا اظھار کرتے رہتے ہیں۔ جو ان کا تعلق ھمیشہ اس بات سے بھی ثابت ہوتا ہے کے منیر حسین بھٹی جوابدار گھنو خان جتوئی اور معشوق علی جتوئی کے کہنے پر اس کیس میں جوابدار موتی رام کی عبوری ضمانت قبل از گرفتاری میں ان کا ضامن ہوا۔ جو جوابدار گھنو خان جتوئی اور جوابدار معشوق علی خان زیادہ ہراساں کرتے، پریشرائیز کرتے اور بدنام کرتے اور ذھنی اور جسمانی ازیعتوں میں مبتلا کرتے اور میرے مذکورہ کیس سے ہاتھ اٹھانے کے لیئے اپنے مذکورہ ملازم نام محمد اسلم شیخ کے ذریعے میرے خلاف عدالت میں جناب سیشن جج لاڑکانہ میں تاریخ 2015-01-08 پر بلکل جھوٹی اور بے بنیاد ڈائریکٹ کمپلینٹ نمبر 2015/09 داخل کرواکر جو معزز جج صاحب عدالت جناب پانچواں ایڈیشنل سیشن جج لاڑکانہ کو ٹرانسفر کیا۔ جو معزز عدالت اپنے آرڈر تاریخ 2015/09/12 کے تحت رد کردی جو جوابدار معشوق علی جتوئی اور جوابدار موتی رام اور ان کے بیٹے ہریش کمار کے ایسے جھوٹے کیس اور بے بنیاد کیسوں اور جوابدار گھنو خان جتوئی اور معشوق علی جتوئی کی طرف سے جوابدار موتی رام اور ان کے بیٹے ہریش کمار کے طرف سے میرے خلاف بے بنیاد توہین آمیز، تذلیل کرنے والے، دل دکھانے والے بدنام کرنے والے اور ذہنی اور جسمانی ازیت میں مبتلا کرنے والے اور مالی نقصان پھچانے والے بیان احتجاج اور اپیلیں شایع کرنے کے خلاف میں نے اور میرے گھروالوں نے ایسے کرمنل اور سول کیس معزز عدالتوں میں داخل کروائے ہیں، جو زیر سماعت میں۔ جیسے کہ جوابدار گھنو خان جتوئی، جوابدار معشوق علی جتوئی اور جوابدار موتی رام میرے مذکورہ کیس FIR نمبر 2014/69 میں عدالت سے حاصل کی ہوئی ان کی عارضی ضمانت گرفتاری سے پہلے کی میرے خلاف انتقامی طور پر استعمال کرتے ہوئے میرے خلاف ، میرع بیوی ، میرے بیٹے، میرے کمدار شاہد اور چوکیدار کے خلاف ناجائز استعمال کرتے ہوئے اوپر بیان کیئے ہوئے کیس داخل کیئے اور توہین آمیز بیان، احتجاج اور درخواستیں شایع کروائیں جو ان کے ایسے ناجائز عمل خلاف میں نے ان کی عارضی ضمانت گرفتاری سے پہلے رد کرانے کے لیے عدالت میں جناب اپیشل جج اینٹیکرپشن لاڑکانہ میں ایسی درخواستیں داخل کروائیں جو معزز عدالت میں زیرسماعت میں۔ جیسا کے اور زیادہ انتقامی کاروائی کرتے ہوئےجوابدار معشوق علی جتوئی خود اور اپنے ملازموں کے ساتھ مل کے میرے خلاف میری گھروالی کے خلاف اور میرے ملازموں کے خلاف اور جھوٹے کیس داخل کیے ہین، مجھے پریشان کر سکے۔ جو کیس خود مجاز عدالتوں میں زیرسماعت ہیں جیسے کے جوابدار گھنو خان جتوئی اور جوابدار معشوق علی جتوئی لاڑکانہ کے جانے پہچانے اثر رسوخ والے لینڈ معافیہ ہیں، جب کے جوابدار معشوق علی جتوئی انچارج میڈیا سیل پاکستان پیپلز پارٹی خود ہے جن کی پہنچ منسٹر لیول تک ہے۔ اس لیے ان کے خلاف داخل کیے ہوئے میرے کیس کی جانچ پے اثر انداز ہونے کے لیئے انھوں نے اپنی اثر رسوخ کیس کی تفتیشی آفیسروں اور لاڑکانہ پولیس بھرپور انداز سے استعمال کیا۔ جو نتیجے چور مذکورہ جانچ تمام سست رفتاری سے ہونے لگی ہے جو میرے مسلسل عرض کرنے پے جناب انچارج لیگل برانچ SSP آفیس لاڑکانہ اپنی آفیس لیٹر نمبر 70/2014 LB تاریخ 2017/07/04 تحت P.S SHO مارکیٹ کو حکم کیا کے کیس کا انٹم چالان زیرقلم 344 کپک نامزد جوابداروں کے خلاف عدالت میں پیش کیا جائے اور تفتیشی آفیسر کو حکم دیا گیا کے کیس کی جانچ مقرر وقت پر مکمل کی جائے اور لیگل برانچ کو آخری قانونی رائے کے لیے بھیجا گیا جو ایسے حکم باوجود نامزد جوابدار گرفتار نہیں کیے گئے اور کیس کا انٹم چالان پیش نہیں کیا گیا۔ جو بعد میں 2014-07-09 پر جناب SSP لاڑکانہ کی طرف سے دوبارہ جانچ کریں اور جانچ مکمل کر کے چالان عدالت میں پیش کرنے کا حکم جاری کیا پر پھر بھی بھاگے ہوئے جوابدار گرفتار نہیں کیے گئے اور نہ ہی مذکورہ چالان عدالت میں پیش کیا گیاجو جوابدار گھنو خان جتوئی اور جوابدار معشوق علی جتوئی کی ایسی سیاسی پریشر سبب تفتیشی آفیسر کی سست اور ناکام جانچ سے غیر مطمئن اور تنگ ہوکے میں نے DIG لاڑکانہ کو جانچ کسی ایماندار بھادر اور ذہین پولیس آفیسر کو ٹرانسفر کرنے کے لیے عرض کیا۔ جو معزز DIG صاحب اپنے حکم نمبر 2014/47 – 25245/R/CR تاریخ 2014-07-22 تحت کیس کی جانچ اس وقت کے SP سٹی شکارپور سے ناکام شفاف اور ایماندار جانچ کرنے کے لیے ٹرانسفر کیا۔ اس دوران کیس کے اس وقت کی تفتیشی آفیسر اظھر علی منگی کیس کا انٹیرم چالام تاریخ 2014-07-23 پے عدالت میں جمع کروایا ۔ جو کیس کی مزید جانچ جناب SP سٹی شکارپور مسٹر کامران نواز کو موصول ہونے پر اس نے ایسی جانچ اپنی ماتحت SIP لعل بخش مگنیجو P.S SIO نیو صوبیدار شکارپور کو اپنی نگرانی ناکام اور شفاف جانچ کرنے پر ایسی رپورٹ زیرقلم 173 کپک مجاز عدالت میں پیش کرنے کے لیے ان کے حوالے کی جو اس دوران جناب کامران نواز ASP سٹی شکارپور سے ٹرانسفر کر کے SP ہیڈ کوارٹر لاڑکانہ مقرر کیا گیا۔ جس نے ایسی چارج تاریخ 2014-08-11 پے سنبھالی، اس لیے میرے کیس کی جانچ SIP غلام مصطفی سانڈانو P.S SIO دڑی لاڑکانہ کو زیر نگرانی جناب کامران نواز SP ہیڈ کوارٹر لاڑکانہ کے بذریعہ کیس ڈائری تاریخ 2014-08-24 ، شفاف اور غیر جانبدار جانچ کرنے رپورٹ زیر قلم 173 کپک مجاز عدالت میں جمع کرنے کے لیے دی گئی پر جوابدار گھنو خان جتوئی اور جوابدار معشوق علی جتوئی کی سیاسی اثر رسوخ اور پریشر تفتیشی آفیسر اور پولیس پے جاری اور برقرار رہا۔ اور اس دوران انھوں نے جو پریشر صوبائی گھرو وزیر کے ذریعے استعمال کیا گیا۔ بیرحال میرے اطمعنان اور کاغذی کاروائی پوری کرنے اور آخری فائدہ جوابداروں کو پہچانا اور مجھے نقصان پہچانے کے لیے کیس کی جانچ مذکورہ آفیسر نے شروع کی اور تاریخ 2014-08-21 پے میرا “زیادہ بیان فریادی” قلمبند کیا، جس میں مینے بیان کیا کے جیسے کے اس کیس میں گناھ زیر قلم (2) 5 اینٹیکرپشن ایکٹ / شامل کیا گیا ہے، اس لیے دوسرے سرکاری اور پرائویٹ جوابدار جو جوابدار موتی رام کے ساتھ شامل گنھگار ہیں۔ ان کے لیے یے زیادہ بیان دے رہا ہوں کے اس جھوٹے ، جعلی اور بغیر رجسٹرڈ کیے ہوئے مختیارنامے میں دکھائے ہوئے دو گواہ ایک جوابدار غلام حیدر بیٹا قصارو شیخ رہائش علی آباد تعلقہ باکرانی اور دوسرا منٹھار علی بیٹا نیک محمد مگسی رہائش گوٹھ غلام مگسی تعلقہ ڈوکری اور دو نامعلوم شخص جس میں سے ایک تھا اسٹامپ وینڈر جس نے 500 رپیوں کے اسٹامپ پیپر پے 165 تاریخ 2001-07-26 بغیر لکھے ٹریزری آفیسر کی دستخط اور مہر کے، جوابدار موتی رام کے دستخط لینے کے، موتی رام ولد صدورومل رہائش کرما باغ کا نام لکھا ہے اور بھیچا ہے۔ اور دوسرا وہ شخص جس نے اس جھوٹے اور جعلی اسٹامپ پیپر پے کمپیوٹر کے ذریعے، کسی کے دستخط اور نام کی لکھائی کیے بغیر اور گواہوں کی بغیر CNIC کارڈ وں کے نمبر لکھنے کی دستخط کی۔ ان کے ساتھ سرکاری ملازم جوابدار مسعود احمد بگھیو بیٹا نامعلوم رہائش انصاری محلہ برابر کراچی میڈیکوز کے میری موجودگی کے بغیر میری اصل دستخط اور مرضی کے بغیر اور میری اصل CNIC دیکھنے کے بغیر میری طرف سے جھوٹی تحریر کر کے بغیر جوابدار موتی رام کی دستخط کے غیر قانونی طرح اسسٹنٹ مختیارکار ڈوکری کی حیثیت سے دستخط کی تاریخ اور مہر لگائی جھوٹی تصدیق کی جس کی کاپی پہلے پیش کر چکا ہوں اس کے بعد تاریخ 2003-05-09 پے جھوٹے اور جعلی مختیار نامے کے سحارے پر جوابدار غازی دربان تپیدار دیھ واھ نبی بخش تعلقہ لاڑکانہ اور جوابدار بخش علی جتوئی سپر وائیزنگ تپیدار کے ساتھ مل کے دھوکا کر کے جوابدار مسعود احمد بگھیو بحیثیت مختیار کار کے دو فرد سرٹیفکیٹ ایک دو داخلائوں 3794 اور 3795 سروے نمبر جو پہلے FIR میں دکھائے گئے ہیں جن کی اعراضی 32 ایکڑ 11 گھنٹہ ہے اور دوسرا داخلا 3715 چار سروے نمبروں کا جن کی اعراضی 15 ایکڑ 33 گھنٹہ ہے جو میرے نام پے جاری کیا اور ان تینوں جوابداروں نے مل کے دھوکا کیا ان 14 سروے نمبروں کے ساتویں فارم کی ٹرو کاپی بنانے کے بغیر آفیس رکارڈ کی فوٹو کاپی بنوائی اس پر دستخط کر کے مہر لگائی اس کو غیر قانونی طریقے سے تیار کیا اور میرے سامنے سب رجسٹرار لاڑکانہ کی آفیس میں کسی سیل ڈیڈ میں استعمال کیئے ہوئے CNIC کارڈ کی فوٹو اسٹیٹ کاپی کی فوٹو کاپی کروائی اس پر غیر قانونی طرح دونوں طرف سے جھوٹی تبدیلیاں کی اور “فار رجسٹرار آفیس” کو کاٹ کے اس پر “فار پاور آف اٹارنی ” لکھا اور دستخط میں تبدیلی کی اور بگھوانو کی جگھ پر بگھوانداس لکھا جو لکھت جعلی ہے جس کی کاپی پہلے پیش کر چکا ہوں پھر تاریخ 2003-05-10 پے دو گواھ جوابدار طالب حسین بیٹا محمد حسن انڑ رہائش علی آباد تعلقہ ڈوکری اور جوابدار عبدالحفیظ بیٹا عل فل سومرورہائش سید بچل شاھ کی دستخطوں کے ساتھ اور ان کے سامنے 15000 روپے کے دستاویز پر جوابدار لعل بخش بیٹا محمد ایوب مگریو کے خریدے ہوئے دستاویز پر اسٹامپ وینڈر اور رائیٹر جوابدار سکندر علی بیٹا بخش جتوئی سے لکھت کروائی اوپر بتائے ہوئے جھوٹے کاغذات شامل کرکے جوابدار وزیر حسین سولنگی نے سب رجسٹرار لاڑکانہ کو پیش کیئے جس نے غیر قانونی طریقے سے میری اصل CNIC دیکھنے کے بغیر مجھ سے ویریفائے کرنے کے بغیر اس جھوٹے اور جعلی مختیارنامے کے آدھار پر تیار کیئے ہوئے جھوٹے سیل ڈیڈ کو رجسٹرڈ کرنے کے لیئے جوابدار موتی رام سے جوابدار وزیر حسین سولنگی اپنی آفیس کی رجسٹریشن بوک پے دستخط اور انگوٹھا لگوایا اور دستاویز پر جوابدار موتی رام سے دستخط لی اور ایک ئی دن کے اندر یعنی 2003-05-10 پر سب کاروائیاں پوری کر کے جلد بازی کر کے رجسٹریشن مکمل کرلی اور سب جوابدار اس گناھ میں برابر کے حصیدار ہوئے اور جوابدار موتی رام اس سیل ڈیڈ کی رقم 500000 وصول کرنے کی لکھت کی ایسے کاغذات میں پہلے سیل ڈیڈ ایک کرکے پیش کر چکا ہوں بعد میں تاریخ 2004-02-11 پر جوابدار لعل بخش مگریو سرکاری جوابدار غازی خان دربان تپیدار دیھ واھ نبی بخش لاڑکانہ اور سرکاری جوابدار بخش علی زنگیچو سپروائیزنگ تپیدار اور سرکاری جوابدار نظام جتوئی بحیثیت اسسٹنٹ مختیار کار لاڑکانہ اور جوابدار سکندار علی چانڈیو مختیار کار لاڑکانہ کی ملی سازش اور اس جھوٹے اور جعلی مختیارنامے کی بنیاد پر جھوٹے کاغذات پر بنائے گئے اور پہلے سیل ڈیڈ کی سرکاری دیھ واھ نبی بخش کی بوک فارم ساتویں میں انٹری نمبر 2004-2-11/6421 کے تحت داخلا رکھی اور قانون کی پچھلی داخلا کا کالم نمبر 3 خالی رکھا ایسی رکھی گئی داخلا ٹرو کاپی دکھا کے اس کی فوٹو کاپی پہلے پیش کر چکا ہوں پھر جوابدار لعل بخش مگریو تاریخ 2004-05-02 پر جوابدار غازی خان دربان تپیدار جوابدار بخش علی زنگیچو سپروائیزنگ تپیدار اور سرکاری جوابدار ممتاز علی چنو مختیار کار لاڑکانہ سے ملی سازش کر کے غیر قانونی طرح مذکورہ 4-48 ایکڑ زمین کا ایک فرد سرٹیفکیٹ (سیل سرٹیفکیٹ) بنوایا، جس میں قانون کی پچھلی داخلا دکھائی ہوئی نہیں ہے ایسے سرٹیفکیٹ کی کاپی پیش کر تا ہوں، اس کے ساتھ ایک ساتویں فارم کی ٹرو کاپی اسی جوابدار کے ساتھ ملی سازش کر کے بنوائی جس میں بھی پرانی داخلا کا کالم نمبر 3 رکھا ہوا ہے بعد میں دو شاہدوں ایک شمشاد علی بیٹا مہرم علی جوکھیو رہائش خیر محمد آریجا تعلقہ باکرانی اور دوسرا جوابدار زاھد حسین بیٹا غلام مہرم قادر کھوکھر رہائش سید غلام قادر شاھ تعلقہ لاڑکانہ کی دستخطوں سے جوابدار سکندر علی بیٹا بخش علی جتوئی اسٹامپ وینڈر رائیٹر سے 15300 روپیوں کے دستاویز پر جوابدار بدرالدین ساریو بیٹا مجنون خان ساریو رہائش ساریہ محلہ باڈھ تاریخ 2004-11-20 کے خریدے دستاویز پر 2004-11-23 پر لکھت کروا کے جوابدار بدرالدین ساریو کو 510،000 روپیوں میں بیچ کے دی اور 2004-12-4 پر جوابدار وزیر حسین سولنگی سب رجسٹرار لاڑکانہ کی آفیس میں رجسٹریشن بوک پر جوابدار لعل بخش مگریو نے انگھوٹھا لگایا اور دستاویز پر بھی دستخطیں کر کے بھیجیں اور ایسی سیل ڈیڈ تیار کی جو جوابدار وزیر حسین سولنگی نے غیر قانونی طرح سے رجسٹرڈ کی اور اسی تاریخ 2004-12-4 پے رجسٹریشن 3431 سے وہ رجسٹریشن ہوئی اور بعد میں غیر قانونی سیل ڈیڈ دو کو مائکروفلم پے داخلا بھی رکھی گئی جس کی فوٹو کاپی ساتویں فارم کے ساتھ پیش کرتا ہوں پھر جوابدار بدرالدین ساریو 2006-03-10 پر جوابدار سلیم احمد منگی تپیدار دیھ واھ نبی بخش اور جوابدار ممتاز علی چنو مختیار کار لاڑکانہ سے ملی سازش کر کے ایسی غیر قانونی داخلا 7751 تاریخ 2006-03-10 روینیو رکارڈ فارم ساتواں کی بھی دیھ واھ نبی بخش تپو ابڑا تعلقہ لاڑکانہ میں رکھوائی اور غیر قانونی طرح پرانی داخلا کا کالم نمبر 3 خالی رکھا جس کی فوٹو کاپی پیش کرتا ہوں جیسے کے بذریعہ نمبر 2006/587 تاریخ 2006-03-11 پے لاڑکانہ کے سب کے بالا آفیسر دپٹی دسٹرکٹ آفیسر جوابدار بشیر احمد عباسی مختیار کار کو فرد سرٹیفکیٹ جاری کرنے کی لکھت میں منع کی گئی جس کی کاپی پیش کر رہا ہوں اس کے باوجود جوابدار بدرالدین ساریو سرکاری جوابدار سلیم احمد منگی تپیدار اور جوابدار بشیر احمد عباسی مختیار کار لاڑکانہ میں ملی سازش کر کے غیر قانونی طرح مذکورہ زمین کی ایراضی 4-48 ایکڑ کا تاریخ 2007-03-21 پر جوابدار بدرالدین ساریو جوابدار سلیم احمد منگی تپیدار اور جوابدار ممتاز علی چنو لاڑکانہ سے دیھ واھ نبی بخش کی مذکورہ 4-48 ایکڑ زمین کے ساتویں فارم کی ٹرو کاپی بنوائی جس میں پرانی داخلا نہیں دکھائی گئی جس کی فوٹو کاپی پیش کررہا ہوں اس کے بعد تاریخ 2007-03-22 پر جوابدار بدرالدین ساریو دو گواہوں جوابدار شاھنواز بیٹا رب رکھیو میمن رہائش غالب نگر برابر ذولفقار باغ اور جوابدار اظھر علی بیٹا شفیق احمد چانڈیو رہائش اولڈ بس اسٹینڈ شاھ آباد محلا لاڑکانے کی دستخط سے 30000 روپیوں کا محمدی بلڈرز کے نام سے خرید کیا ہوا دستاویز جوابدار سکندر علی جتوئی اسٹامپ وینڈر سے لکھت کروائی 10،00000 روپیوں میں میسری محمد ی بلڈرز پرائیویٹ لمیٹیڈ رائل سٹی روڈ لاڑکانہ معرفت مئینیجنگ ڈائریکٹر جوابدار حاجی گھنو خان جتوئی ولد کرم خان جتوئی کو تاریخ 2007-03-22 میں بیچ کر جوابدار فرمان علی عباسی بیٹا قربان علی عباسی سب رجسٹرار لاڑکانہ کے سامنے دستخط کی اور رجسٹریشن بوک پے انگھوٹھا لگایا اور جوابدار بددرالدین ساریے نے 10،00000 لاکھ روپئے وصول کیئے اور جوابدار فرمان علی عباسی تاریخ 2007-03-22 پے غیر قانونی طریقے سے اس سیل ڈیڈ کی رجسٹریشن کی اور 2007-03-31 پر مائکروفلم کے رکارڈ میں یے سیل ڈیڈ دوسرے کاغذاتوں کے ساتھ رکارڈ کی گئی ہیں جیسے کے جوابدار معشوق علی جتوئی اور جوابدار سکندر علی جتوئی دونو بیٹے جوابدار گھنو خان جتوئی کے میسری محمدی بلڈرز کی ڈائریکٹروں کی حیثیت میں اس گناھ میں شامل ہیں۔ بعد میں میسری محمدی بلڈرز اپنے ڈائریکٹروں جوابدار حاجی گھنو خان، جوابدار معشوق علی جتوئی اور جوابدار سلیم احمد منگی تپیدار دیھ واھ نبی بخش اور سرکاری جوابدار بشیر احمد عباسی مختیار کار لاڑکانہ سے ملی سازش کر کے تاریخ 2007-04-11 پے اس سیل ڈیڈ کو روینیو رکارڈ کے فارم “ساتویں B” دیھ واھ نبی بخش میں داخلا 8659 تاریخ 2007-04-11 تحت رکھی گئی۔ جیسے کے اوپر ذکر کیئے گئے دوسرے “ساتویں فارموں” میں ایک 6421 اور دوسرا 7751 تاریخ 2006-03-10 کے کالم نمبر 3 پرانی داخلا کے کالم خالی رکھے گئے اور ان میں کوئی بھی داخلا نہیں رکھی گئی، پر جوابدار حاجی گھنو خان ، جوابدار معشوق علی جتوئی اور جوابدار اقبال احمد تنیو رہائش نظر محلہ سے مختیار کار کی حیثیت میں بغیر کسی بالا آفیسر سے اجازت لینے کے، داخلا 6421 تاریخ 2004-02-11 کے پہلے “ساتویں فارم B” میں چار انٹریاں پرانی داخلاؤں کی کروائیں، جس کی یے لکھت اور سیاہی سے صاف ظاہر ہے کے یے بعد میں کی گئی ہیں اور داخلا 7751 تاریخ 2006-03-10 دوسرے “ساتویں فارم” کے کالم نمبر 3 میں پرانی داخلا غیرقانونی طرح رکھی۔ ایسی 6 عدد ساتویں فارم کی کاپیاں پیش کر رہا ہوں۔ بعد میں جوابدار حاجی گھنو خان جتوئی، جوابدار معشوق علی جتوئی، جوابدار محمد نواز بروھی بیٹا نواز احمد بروھی رہائش درگاھ مشوری شریف لاڑکانہ، جوابدار غلام اللہ جتوئی بیٹا احمد جتوئی، جوابدار ھزارہ خان جتوئی، جوابدار محمد صلاح بیٹا چاکر خان جتوئی، بخشل بیٹا ھاشم علی جوابدار ذوالفقار بیٹا ھاشم علی جتوئی سے ملی سازش کر کے میری زمین پر قبضہ کرنا شروع کیا اور اس میں راستے بنانے شروع کیے اور جب کسی نے ان سے پلاٹ خرید کیے تو وہ بھی جانچ بعد اس کیس کے جوابدار بنگئے جب چھٹی ایڈیشن سیشن جج صاحب لاڑکانے کی کورٹ سے رپورٹ 4458 تاریخ 2007-10-4 پے مختیار کار لاڑکانہ سے مانگی گئی ، جوابدار حاجی گھنو خان جتوئی، جوابدار حاجی معشوق علی جتوئی کی ملی سازش سے سرکاری جوابدار سلیم احمد منگی اور سرکاری جوابدار بشیر احمد مختیار کار لاڑکانہ اپنی رپورٹ 4966107 تاریخ 2007-10-10 میں غلط بیان کرتے ہوئے لکھا کے سروے نمبر 1/60 اور 2/60 ڈاکٹر بھگوانداس رجسٹرڈ سیل ڈیڈ کے ذریعے جوابدار لعل بخش کو بیچ دیا اور جھوٹے اور جعلی مختیار نامے کو غیر قانونی طریقے سے چھپا دیا ہے اور میرے کیس کو سخط نقصان پہنچایا جس کی فوٹو کاپی پیش کرتا ہوں ایسے نمونے سے اوپر بتائے ہوئے جوابداروں نے ملی سازش اور جعل سازی کر کے، رکارڈ کی چھیڑ چھاڑ کرکے، قبضہ کر کے مجھے دو ارب روپیوں کا نقصان دیا ہے اسی طرح جو مینے کیس کے تفتیشی آفیسر کے پاس اپنا ایسا زیادہ بیان فریادی قلم بند کروایا پھر وہی تاریخ 2014-08-21 پے میرے شاہد احمد علی بیٹا عبداللہ کھکھرانی رہائش گاؤں مینگھراج تعلقہ لاڑکانہ، جو میرا کمدار ہے جو بیان زیرقلم 161 کپک کیس کے تفتیشی آفیسر نے قلم بند کیا اور جس میں اس نے میرے اور میرے گھروالوں کے بیان کی مکمل تاکید کی اور مذکورہ جوابدار موتی رام لعل بخش مگریو اور جوابدار بدرالدین ساریو کو میری زمین کا قبضہ ملنے پر مکمل طور پر رد رکرتے ہوئے بیان کیا کے وہ اس زمین کا کمدار ہونے کے لیئے مسلسل زمین پر جاتا رہتا تھا اور جوابدار موتی رام بیٹا صدورو مل ، جوابدار لعل بخش مگریو اور جوابدار بدرالدین ساریو کو کبھی بھی اس زمین پر آتے نہیں دیکھا اور نا ہی ان کے لوگ کبھی زمین پر آئے اس نے اپنے بیان میں جوابدار گھنو خان جتوئی اور جوابدار معشوق علی جتوئی کی طرف سے میری مذکورہ زمین پر غیر قانونی اور ناجائز قبضہ کرنے پر بتاتے ہوئے زیادہ بیان کیا کے سال 2007 عیسوی میں جوابدار گھنو خان جتوئی اور جوابدار معشوق علی جتوئی اور اپنے دوسرے لوگوں اوپر بتائے گئے جوابداروں سے مل کر میری اور میرے گھر والوں کی جڑی ہوئی زمین پر کچھ سروے نمبروں پر غیر قانونی اور ناجائز قبضہ کرنا شروع کیا جو ابھی تک برقرار ہے میرے کمدار نے اپنے بیان میں جوابدار موتی رام نے اپنے اخباری بیان کیا کے وہ ہمارا میئنیجر تھا اس لیئے میں نے اس کو پاور آف اٹارنی لکھ کر دیا جس کو بلکل رد کرتے بیان کیا کے وہ ہمارا کمدار ہونے کے لیئے ہماری کلینک اور گھر پہلے بھی آتا تھا اور اب بھی
آتا جاتا رہتا ہے، جوابدار موتی رام کا ہم سے یا ہمارے خاندان کے کسی بھی فرد سے کوئی بھی واسطہ نہیں رہا ہے اور اس نے کبھی بھی جوابدار موتی رام کو کلینک یا گھر آتے نہیں دیکھا اور جوابدار موتی رام کا یے بیان کے وہ ہمارا میئنیجر تھا اور ہماری مذکورہ زمین کی دیکھ بال کرتا تھا بلکل جھوٹا اور بے بنیاد ہے اور وہ ہمارا میئنیجر اور ملازم نہیں رہا ہے جو بعد میں تاریخ 2014-08-24 پر تفتیشی آفیسر شاہد مجیب الرحمن ولد خمیسو خان سانگی رہائش صدیقی کالونی برابر ڈاکٹر خالد محمود سومرو لاڑکانہ کا یے بیان زیر قلم 161 کپک قلم بند کیا جس میں اس نے جوابدار موتی رام کے اس اخباری بیان کیا کے وہ ہمارا میئنیجر رہا ہے بلکل رد کرتے ہوئے بیان کیا کے وہ ہمارے پاس تقریبا 20 سالوں سے لیکر ہماری جگہوں کی مرامت کے لیئے کاریگر اور ٹھیکیدار طور آتاجاتا رہتا تھا جو سال 1997 میں کجھ زرعی زمین دیھ واھ نبی بخش نے خریدی تھی جو اس سلسلے میں وہ ہماری کلینک اور گھر میں آتا جاتا رہتا تھا اور مذکورہ زمین پر کچھ مرامت کا کام کیا تھامیرے ساتھ مل کر اس زمین پر و ہ خود جاتا رہتا تھا، موتی رام ولد صدورہ مل رہائش کرما باغ پے جنرل اسٹور تھا وہ اس سے سامان وغیرہ لیتا رہتا تھا جو سال 2006 میں خبر ملی کے جوابدار موتی رام میری زمین کا جھوٹا پاور آف اٹارنی بنوائی، زمین کسی اور آدمی کو بھیج کر دی ہے، اور بعد میں یے زمین محمدی بلڈرز والوں گھنو خان جتوئی کی معرفت خرید کی ہے۔ مجیب الرحمن زیادہ بیان کرتے ہوئے بتایا کے اس نے جوابدار موتی رام کو کبھی بھی زمین پر آتے نہیں دیکھا ، بحال کرنے والے بیان کو بلکل رد کردیا ہے اس نے اپنے بیان میں جوابدار گھنو خان جتوئی اور جوابدار معشوق علی جتوئی نے میری مذکورہ زمین پر غیر قانونی اور ناجائزی قبضہ کرنے پر زیادہ بیان کیا کے سال 2007 میں مذکورہ جوابداروں نے اپنے دوسرے اوپر ذکر کیئے ہوئے جوابداروں سے مل کر ہماری زمین پر قبضہ کرنا شروع کیا جو اب تک برقرار ہے جوابدرا موتی رام کے لیئے اس نے زیادہ بیان کیا کے موتی رام کا ہماری یا ہمارے خاندان کے کسی بھی فرد سے کبھی بھی کوئی بھی واسطہ نہیں رہا ہے اور اس نے موتی رام کو ہماری کلینک یا زمین پر نہیں دیکھا ہے اور جوابدارموتی رام کا اخبار میں یے بھی بیان ہے کے وہ ہمارا میئنیجر تھا اور ہماری دیکھبال کرتا تھا بلکل جھوٹا اور بے بنیاد ہے اور موتی رام کبھی بھی ہمارا میئنیجر یا ملازم نہیں رہا ہے جو تفتیشی آفیسر مذکورہ جوابدار کی نامزدگی اور ان کے خلاف اتنے زیادہ ثبوت اور کاغذات کے باوجود جوابدار گھنو خان جتوئی اور جوابدار معشوق علی جتوئی کے سیاسی پریشر اور اثر رسوخ کے لیئے کوئی بھی قانونی قدم نہیں لیا اور نا ہی ان کو گرفتار کیا بلکہ ان کو آسانی فراہم کرتے کیس کے جوابدار نا سمجھتے اور بچاؤ کے شاہد ظاہر کرتے مذکورہ جوابداروں کو غیر قانونی فائدہ دینے کے خاطر میرے مسلسل اعتراض کے باوجود ان کے بیان قلم بند کیئے اور قانون کے الٹ ان سے جوابدارطور کوئی بھی پوچھ تاچھ نہیں کی جو اس سلسلے میں تاریخ 2004-08-24 پر جوابدار لعل بخش مگریو بولتے اور بے بنیاد باتیں کرتے بیان کیا کے اس نے مجھ سے ذرعی زمین اعراضی 48 ایکڑ 4 گھنٹہ واقع دیھ واھ نبی بخش تپو ابڑو تعلقہ اور ضلعہ لاڑکانہ پئسے اندازا پانچ لاکھ روپیوں میں تاریخ 2003-05-10 پر خرید کی اور میں نے اس کو یے زمین اپنے اٹارنی موتی رام ولد صدورومل کے ذریعے رجسٹرڈ کروائی جسکا کھاتہ قانون مؤجب رکھا گیا اور قبضہ اس کے حوالے کیا گیا جس کے بعد یے زمین دو سال بعد اس نے چالاکی سے بدرالدین ساریو کو رجسٹری کرکے دی اور قبضہ حوالے کیا اور اس F.I.R اس کو غلط نمونے پھنسایا گیا ہے جوابدار لعل بخش مگریو کا یے جھوٹا بیان جوابدار گھنو خان جتوئی اور جوابدار معشوق علی جتوئی کے کہنے پر دیا ہے حقیقت میں مینے جوابدار لعل بخش مگریو کو مذکورہ زمین تاریخ 2003-05-10 پر یا کسی دوسری تاریخ پر فروخت یا بیچ کر نہیں دی اور نا ہی اس کی قیمت مذکورہ 500000 لاکھ روپئے لیے ہیں اور نا ہی جوابدار موتی رام میرا اٹارنی تھا اس لیئے جوابدار موتی رام کو میرے اٹارنی کی حیثیت سے جوابدار لعل بخش مگریو کو میری مذکورہ زمین رجسٹری کر کے دینے کی کوئی بھی قانونی جواز نہیں ہے اور جوابدار لعل بخش مگریو کی جعلی اور جھوٹی پاور آف اٹارنی تحت رجسٹری کروانا غیر قانونی اور ناجائز ہے ، جس سیل ڈیڈ کی رجسٹری کی قانون کی نظر میں کوئی بھی اہمیت نہیں ہے اور اس غیر قانونی اور جعلی پاور آف اٹارنی کے تحت تیار کیا ہوا غیر قانونی طرح رجسٹرڈ ہوا سیل ڈیڈ کے بھروسے رکھا ہوا کھاتا غیر قانونی ہے، جتنی قدر جوابدار لعل بخش منگریو کا یے بیان مذکورہ زمین کا قبضہ جوابدار موتی رام نے اس کے حوالے کیا جو تعلق ہے کے میرا کہنا ہے کے جب میری مذکورہ زمین کا قبضہ میرے ھاری اور کمدار کے ذریعے میرے پاس تھا کے یے قبضہ جوابدار موتی رام کی طرف سے جوابدار لعل بخش منگریو کے حوالے کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور میری اس وضاحت کے بعد جوابدار لعل بخش منگریو مذکورہ زمین کا جائز اور قانونی مالک ثابت نہیں ہورہا، اس لیے اس کا جوابدار بدرالدین ساریو کو یے زمین کو بیچنے کا کوئی بھی قانونی قدم اور عمل ہے، باقی زمین کا قبضہ جوابدار لعل بخش کے پاس تھا ہی نہیں، اس لیے قبضہ جوابدار بدرالدین ساریو کے حوالے کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ جوابدار لعل بخش منگریو مذکورہ گناہ میں دوسرے جوابداروں کے ساتھ برابر کا شریک تھا اس لیے اس کیس میں درست شامل کیا گیا۔ جو وہ ہی تاریخ 2014-08-24 پے تفتیشی آفیسر جوابدار بدرالدین ساریو رہائش باڈھ تعلقہ ڈوکری ضلعہ لاڑکانہ کا بیان قلم بند کیا، جس میں اس جوابدار نے غیر قانونی اور قانون کے پیچھے باتیں کرتے ہوئے بیان کیا کے اس نے مذکورہ زمین جوابدار لعل بخش منگریو سے تاریخ 2004-11-23 پے رجسٹرڈ دستاویز کے ذریعے خرید کی، جو فوٹو رجسٹرار کے پاس تاریخ 2005-02-10 پے داخل کی ہوئی ہے اور ایسی داخلا اس کے نام پے ساتویں فارم میں رکھی گئی۔ اس نے ایسا رجسٹرڈ دستاویز اور ساتواں فارم تفتیشی آفیسر کے پاس پیش کیا اس نے زیادہ بیان کیا کے زمین کا قبضہ اس کے حوالے کیا اور اس نے یے زمین محمدی بلڈرز کو معرفت حاجی گھنو خان جتوئی کو بیچ دی تھی، جو اس تاریخ 2007-03-22 پے انداز دس لاکھ روپیوں میں دی ہوئی ہے۔ اس نے زیادہ بیان کیا کے مذکورہ F.I.R میں دکھائے گئے گناھ کی جانچ پہلے ئی روینیو کھاتے کے جھوٹے ملازموں میں اعلی آفیسروں کا بیان قلمبند کیا، جس میں فراڈ ثابت نہیں ہوا اور انکوائری فائل پے تفتیشی آفیسر کے پاس پیش کیا۔ اس نے زیادہ بیان کیا کے اس نے کوئی بھی فراڈ وغیرہ نہیں کیا ہے اور جس سے یے زمین خرید کی، اس وقت ان کا کھاتا رکارڈ میں تھا اور اس نے قانون موجب رجسٹری کروائی اور اس کو مذکورہ کیس میں سیاسی مخالفت تحت جھوٹا پھسایا گیا ہے۔ جوابدار بدرالدین ساریو کے اس غیرقانونی اور جھوٹے بیان کے جواب میں میرا یے کہنا ہے کے اس نے یے بیان جوابدار گھنو خان جتوئی اور جوابدار معشوق علی جتوئی کے کہنے پر دیا ہے، جس کی قانون کی نظر میں کوئی بھی اہمیت نہیں ہے، حقیقت میں جوابدار بدرالدین ساریو نے میری مذکورہ زمین ایسے آدمی سے خرید کرنے کی کوئی بھی قانونی اہمیت نہیں ہے، جس آدمی یعنی جوابدار لعل بخش منگریو نے یے زمین ایک غیرقانونی اور جھوٹے اٹارنی یعنی جوابدار موتی رام سے ایک جھوٹے اور جعلی اٹارنی پاور کے تحت خرید کی، اس لیے ایسی غیر قانونی اور جھوٹے سیل ڈیڈ اور ان کے تحت رکھی غیر قانونی داخلا کے آدھار پر لی ہوئی زمین اور ایسی سیل ڈیڈ اور ان کی رجسٹری اور ساتویں فارم کی داخلا اور فوٹو رجسٹرار کے پاس داخلا کی کوئی بھی حیثیت یا اہمیت نہیں ہے اور یے ساری کاروائی غیرقانونی اور قانون کے تقاضے کے بلکل الٹ اور بدنیتی پے باندھا ہوا ہے اور یے سارا غیرقانونی عمل میری زمین ھڑپنے کی خاطر جوابدار گھنو خان جتوئی اور جوابدار معشوق علی جتوئی سے اور ان کے کہنے پر ایک دوسرے سے اور سرکاری جوابداروں سے ملی سازش کر کے سر انجام دیا گیا ہے۔ اس لیے ایسے قسم کی غیرقانونی خریدوفروخت کے نتیجے میں جوابدار بدرالدین ساریو نے میری مذکورہ زمین کا قبضہ جوابدار لعل بخش کے حوالے کیا، بلکل جھوٹ اور بے بنیاد ہے۔ جتنی قدر جوابدار بدرالدین ساریو کا یے کہنا کے اس زمین محمدی بلڈرز کو جوابدار گھنو خان جتوئی کی معرفت بیچ کے دی، تعلق ہے کے اس سلسلے میں یے کہنا ہے کے وہ خود اس زمین کا قانونی اور جائز مالک نہیں تھا اور زمین ایسے آدمی سے خرید کی تھی کے، جو اس کا قانونی اور جائز مالک نہیں تھا اور غیر قانونی اور جھوٹے جعلی اٹارنی پاور تحت زمین خریدی، اس لیے غیر قانونی اور نا جائز مالک یے زمین کسی اور کو بیچ نہیں سکتا، ایسی قسم کا سودہ بلکل غیر قانونی، قانون کے خلاف ہے، جس کی قانون کی نظر میں کوئی حیثیت یا اہمیت نہیں ہے اور جوابدار بدرالدین ساریو کو کوئی بھی قانونی حق نہیں تھا کے وہ میرے مذکورہ جھوٹے اور جعلی غیرقانونی کاغذات کی آدھار پر جوابدار گھنو خان جتوئی اور جوابدار معشوق علی جتوئی کو ان کی کمپنی کے نام پر بیچ سکے، خصوصی طور اس صورت کا میں نے ان جھوٹے اور جعلی پاور آف اٹارنی کے خلاف اس وضاحت کا نوٹیس تو میں نے اپنی مذکورہ زمین کا کوئی بھی اٹارنی پاور کسی بھی آدمی کو کبھی بھی نہیں دیا ہے، اور کسی بھی شخص کو کوئی بھی قانونی حق یا اختیار میری زمین کی خرید و فروخت کا نہیں ہے، دوسرے اخبار روزانہ “عوامی آواز” تاریخ 15 اور 17 فیبروری 2006 اور روزانہ “کاوش” تاریخ 19 فیبروری 2006 میں چھپانے اور شایع کرنے کے بعد ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیس روینیو لاڑکانہ کی لیٹر نمبر 2006/587 تاریخ 2006-03-11 کے تحت میری زمین کا رکارڈ تبدیل کرنے سے روکنے کا حکم جاری کرنے کے بعد بھی میری زمین کے جوابدار بدرالدین ساریو سے سودہ کرنے اور محمدی بلڈرز کی معرفت جوابدار حاجی گھنو خان جتوئی سے خرید کرنے اور دوسرے سرکاری اور خانگی جوابدار گھنو خان جتوئی سے خرید کرنے اور فروخت میں رجسٹری اور ان کے آدھار پے کھاتا تبدیل کرنا بلکل غیر قانونی، بدنیتی کرنے کا عمل اور گناھ ہے، جب کے جوابدار بدرالدین ساریو اپنے بیان میں مذکورہ زمین کا قبضہ محمدی بلڈرز کے حوالے کرنے کے باوجود بلکل خاموش ہے اور ایسا کوئی بھی ذکر نہیں کیا ہے، جو یے بات ثابت کرتا ہے کے ایسا قبضہ جوابدار گھنو خان جتوئی اور جوابدار معشوق علی جتوئی کو نہیں ملا تھا، پر انھوں نے یے قبضہ غیر قانونی طرح اور ناجائزی سے اپنے دوسرے لوگوں اوپر ذکر کیے ہوئے جوابداروں کی مدد سے میری مذکورہ زمین زبردستی کر کے کیا، جوابدار بدرالدین ساریو کا یے کہینا بلکل غلط اور جھوٹ ہے کے اس نے کوئی بھی فراڈ نہیں کیا ہے۔ اور اس کو سیاسی مخالفت تحت جھوٹا پھنسایا گیا ہے، پر حقیقت یے ہے کے وہ اس گناھ میں جوابداروں کے ساتھ برابر کا شریک ہے اور میری زمین ھڑپنے اور فراڈ میں شامل تھا اور جان بوجھ کر اس گناھ میں شامل ہوا اور اس نے کسی بھی سیاسی مخالفت کے لیے جھوٹا نہیں پھنسایا گیاہے، کیونکہ کیس داخل کرانے تک میرا کسی بھی سیاسی پارٹی سے کوئی بھی تعلق نہیں رہا ہے، اور ناہی جوابدار کی سیاسی تعلق بابت مجھے کوئی بھی پہچان نہیں ہے، اس لیے ان کو جھوٹا پنھسانے کا سوال ئی پیدا نہیں ہوت۔ جوابدار کی اینٹیکرپشن ڈپارٹمینٹ طرف سے کی ہوئی انکوائری دیئے ہوئے بیان کے متعلق میرا کہنا ہے کے یے بات درست ہے کے اس کیس سے پہلے میں نے ایسی کمپلینٹ نمبر 168 سال 2007 اینٹیکرپشن اسٹیبلشمینٹ لاڑکانہ میں تاریخ 2007-06-28 میں داخل کی تھی۔ میرا یے بیان تاریخ 2007-08-27 پے انکوائری آفیسر نے قلم بند کیا، جس میں میں نے کمپلینٹ والی وہی حقیقت بیان کی، پھر انکوائری آفیسر سے ایسی انکوائری مکمل نہ کرنے پر کیس ڈپٹی ڈائریکٹر ACE لاڑکانہ اپنی لیٹر نمبر DD/ACE/R/8880 تاریخ 2007/10/01 کے تحت مذکورہ انکوائری 90 دنوں کے اندر مکمل کرنے کی ہدایت کی پر وہ انکوائری مکمل نہیں کر سکا، کیس پر 90 دن زیادہ دیئے گئے، پر پھر بھی انکوائری مکمل نہیں ہو سکی، کیس کا رمائینڈر جاری کیا گیا، پر نتیجہ وہ ہی رہا، پھر میں نے ایسے دو رمائینڈر تاریخ 2008-04-18 اور 2008-04-29 پر ڈپٹی ڈائریکٹر ACE لاڑکانہ کو انکوائری مکمل کرنے کے لیئے دیئے، جس کی کاپیاں ڈائریکٹر ACE کراچی، چیئرمین ACE کراچی اسپیشل جج اینٹی کرپشن کورٹ لاڑکانہ، سیکریٹری روینیو کراچی، ھوم منسٹر، جو بعد میں یے خبر ملی کے ایسی انکوائری اس وقت کے انگوٹھا آفیسر نیاز حسین کھجڑ نے کی، جس نے ایسی انکوائری رپورٹ روانگی نمبر 1640 تاریخ 2008-06-05 ڈپٹی ڈائریکٹر ACE لاڑکانہ سے ACC-I سندھ کراچی سے جوابدار مسعود احمد بگھیو مختیار کار، جوابدار نظام الدین جتوئی اسسٹنٹ مختیارکار، جوابدار غازی خان دربان تپیدار، جوابدار بخش علی زنگیچو، تپیدار، خانگی جوابدار موتی رام اور دوسروں کے خلاف کیس داخل کرنے کی اجازت لینے کے لیئے روانگی کی، جو ڈپٹی ڈائریکٹر ACE لاڑکانہ رپورٹ ڈائریکٹر ACE سندھ کراچی سے وہ ہی سفارش کرتے ہوئے روانگی کی۔ جو مذکورہ انکوائری رپورٹ میں انکوائری آفیسر/ انگوٹھا آفیسر مکمل انکوائری کرتے کہا کے یے ظاہر ہو رہا ہے کے موتی رام ولد صدورو مل خانگی شخص مسعود احمد بگھیو اسسٹنٹ مختیارکار اور FCM ڈوکری سے مل کے، میرا جھوٹا پاور آف اٹارنی اوپر ذکر کی ہوئی زمین کے نام پر لکھوایا ہے۔ اور میری جھوٹی دستخط کی ہے اور پاور آف اٹارنی میں ہر ایک منٹھار علی مگسی اور غلام حیدر شیخ کی دستخط کی ہے۔ یے پاورآف اٹارنی سال 2001 میں مسعود احمد بگھیو کی دستخط سے اٹسٹیڈ ہے، جس نے اپنے بیان میں وضاحت کی ہے۔ ایسے جھوٹے اٹارنی کے آدھار پر موتی رام ھندو میری زمین کا فرد سرٹیفکیٹ تپیدار غازی خان تپو ابڑو سے مل کے کی ہے۔ جو سال 2003 میں زنگیجو نے چکاس کیا ہے اور دستخط کی ہے اور مسعود احمد بگھیو مختیارکار لاڑکانہ اٹیسٹیڈ کیا ہے اور اس فرد سرٹیفکیٹ کے آدھار پر موتی رام مذکورہ زمین سال 2003 میں بیچ کے خانگی لعل بخش منگریو کو دی ہے، جو دستاویز اس وقت کے سب رجسٹرار لاڑکانہ وزیر حسین سولنگی نے رجسٹرڈ کیا ہے۔ جیسے کے جوابدار مسعود احمد بگھیو نے جان بوجھ کر پاور آف اٹارنی رجسٹرڈ کیا ہے اور اس شاہد نے یے پاور آف اٹارنی سال 2003 میں اپنی پوسٹنگ بحیثیت مختیارکار لاڑکانہ کے دوراں اٹیسٹیڈ کیا ہے۔ پر جان بوجھ کر سال 2001 کی تاریخ لکھی ہے اور اس پاور آف اٹارنی کے آدھار پر ایسا فرد سرٹیفکیٹ جاری کیا ہے، جو ان کا اٹیسٹیڈ کیا ہوا ہے۔ جو مذکورہ سرطل آفیسر جوابداروں نے کے خلاف کیس داخل کرنے کی سازش کرتے ہوئے زیادہ کہا ہے کے انکوائری دوراں اوپر ذکر کیئے ہوئے جوابداروں کے خلاف کیس داخل کرنے کی ثابتی گذر گئی۔ اس لیئے اس نے کیس داخل کرنے کے لیئے عرض کیا، جو بعد میں یے انکوائری رپورٹ ACE-II لاڑکانہ کے آگے رکھی گئی جس نے یے فیصلہ کیا کے ڈسٹرکٹ آفیسر روینیو لاڑکانہ اور سرطل آفیسر ACE سندھ کراچی اپنے لیٹر نمبر – 1058-6869/2007/L تاریخ 2008-12-20 کے تحت مسٹر مھتاب حسین بٹ سرطل آفیسر ACE دادو کو ایسی ملی انکوائری کا میمبر مقرر کیا۔ جو ایسی مکمل انکوائری مکمل کرتے، دونوں سرطل آفیسروں ایک نیاز حسین کھجڑ ACE لاڑکانہ اور دوسرا مھتاب حسین بھٹ ACE دادو ڈپٹی ڈائریکٹر ACE لاڑکانہ تاریخ 2008-12-30 کے تحت ایسی انکوائری رپورٹ بھیجی، جس میں انھوں نے کیس کی مکمل جانچ کرتے ہوئے لکھا کے تاریخ 2008-12-26 پر سرطل آفیسر ACE دادو لاڑکانہ پہنچا، جو یے دونوں آفیسر ڈسٹرکٹ آفیسر روینیو لاڑکانہ سے ملنے کے لیئے ان کی آفیس گئے، پر ان کے موجود نا ہونے پر، وہ دوبارہ تاریخ 2008-12-30 پر ان سے ملے، جس نے ایسی ملی رپورٹ جاری کرنے سے انکار کیا۔ بحرحال دوران بحث ان دونوں آفیسروں نے ظاہر کیا کے مذکورہ پاور آف اٹارنی مسعود احمد بھگیو نے تیار اور سازش سے اٹیسٹیڈ کیا گیا ہے، اس نے زیادہ بیان کیا ہے کے روینیو کھاتوں کی تبدیلی غلط تریقی سے غیر قانونی طرح کی گئی ہے، جس کے لیئے روینیو عملدار اور خانگی لوگ برابر کے ذمیوارد ہیں جو ان دونوں سرطل آفیسروں نے میری کمپلینٹ کو اچھی طرح اور موجودہ رکارڈ اور سرطل آفیس ACE لاڑکانہ کے جاری کیئے ہوئے (CFR) فائینل رپورٹ کو دیکھا جو ان کے مطابق انھوں نے یے دیکھا کے جوابدار موتی رام جھوٹا اور جعلی پاور آف اٹارنی اپنے نام پر تیار کیا اور مسعود احمد بھگیو سے اٹیسٹیڈ کروایا اور اس اٹارنی پاور کے شاہد نام منٹھار علی مگسی اور غلام حیدر شیخ نے خرید کیا جو مسعود احمد بھگیو سال 2001 میں اسسٹنٹ مختیارکار ڈوکری کے حیثیت میں غیرقانونی طرح مذکورہ اٹارنی پاورجوابدار موتی رام کے حق میں اٹیسٹ کیا سال 2003 میں اس کی ترقی ہونے پر، اس کے مختیار کار کر کے لاڑکانہ میں تعنیات کیا اور اس کے حکم پے تپیدار غازی خان دربان اور سپروائیزنگ تپیدار بخش علی زنگیچو نے ایسا فرد سرٹیفکیٹ جاری کیا اور مختیارکار مسعود احمد بھگیو نے اس پر کاؤنٹر دستخط کی ۔ اس کے بعد سرٹیفکیٹ کے بنیاد پر جوابدار موتی رام نے فراڈ سے مذکورہ زمین جوابدار لعل بخش منگریو کو رجسٹرڈ سیل ڈیڈ کے تحت بیچ دی اور ایسی داخلا 6421 تاریخ 2004-02-11 تپیدار غازی خان دربان روینیو رکارڈ میں رکھی، جو سپروائیزنگ مختیارکار لاڑکانہ نظام الدین جتوئی اٹیسٹ کی۔ جو جوابدار کے گناھ سرطل آفیسروں نے زیادہ لکھا کے یے ثابت ہوا ہے کے روینیو کے ملازموں اور خانگی لوگوں نے ایک دوسرے کی ملی سازش اور مدد سے فراڈ کیا ہے۔ انھوں نے انکوائری رپورٹ روینیو دوران گفتگو بتایا ہے کے جھوٹا پاور آف اٹارنی بنایا گیا ہے اور اس کی بنیاد پر زمین کی تبدیلی جھوٹی ہے اور روینیو ملزموں اور آفیسروں جوابدار موتی رام اور دوسروں کی ملی سازش سے درخواست گذار کی یعنی میری زمین کا کھاتا فراڈ سے روینیو رکارڈ میں تبدیل کیا ہے، زیادہ کہا ہے کے وہ اپنی ایسی رپورٹ نہیں دے سکتا باقی انکوائری آفیسر ACE اپنی انکوائری رپورٹ جاری کر سکتے ہیں اور کیس داخل کرنے کے لیئے ACC-II کے آگے پیش کر سکتے ہیں، جو انکوائری آفیسروں کے مطابق انک کی طرف سے رکارڈ کے معائنے میں سے یے یقین ہو رہا ہے کے کیس کی کی ہوئی انکوائری ACE CO لاڑکانہ پاراں اور فائینل رپورٹ دپٹی ڈائریکٹر ACE لاڑکانہ کو بیچ دی گئی جو اسسٹینٹ ڈائریکٹر لیگل تھی اور ڈپٹی ڈائریکٹر ACE لاڑکانہ کی منظوری کے بعد یے ACC-II کے آگے رکھی گئی جو انکوائری آفیسروں نے اپنی سفارش میں لکھا کے مذکورہ بالا حقائق اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئےمنظورشدہ میٹر مختیارکارمسعود احمد بھگیو، تپیدار غازی خان دربان، سپروائیزنگ تپیدار بخش علی زنگیچو اور خانگی موتی رام ھندو، منٹھار علی مگسی، غلام حیدر شیخ اور فائدہ لینے کے لیئے لعل بخش منگریو کے خلاف کیس داخل کرنے کی اجازت لینے کے لیئے ACC-II لاڑکانہ کے آگے رکھا گیا اور دوسرے لوگوں کا جانچ بھترین کیا گیا جو یے میٹر ACC-II لاڑکانہ کے آگے تاریخ 2009-01-30 پر ایک مینگ میں رکھا گیا جو کامیٹی ایسی انکوائری ڈسٹرکٹ آفیسر روینیو لاڑکانہ اور انگوٹھا آفیسر ACE لاڑکانہ کی طرف سے دوبارہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا جو ایسی انکوائری مقسود احمد آگھانی انگوٹھا آفیسر ACE لاڑکانہ مکمل کرتے دپٹی ڈائریکٹر ACE لاڑکانہ سے آفیس لیٹر نمبر CO/ACE/5179- لاڑکانہ تاریخ 2009-11-24 تحت ایسی روائیزڈ فائینل رپورٹ بھیجی جس میں اس نے انکوائری مکمل کرتے ہوئے لکھا کے اس نے ایکزیکیوٹو ڈسٹرکٹ آفیسر روینیو لاڑکانہ کو ایسی انکوائری کرنے کو عرض کیا پر اس نے انکار کرنے پر ACE لاڑکانہ کے آفیسر سے ایسی انکوائری کرنے کا فیصلہ لیا گیاجو انکوائری آفیسر اپنی رپورٹ میں لکھا کے اس کے میٹر کی انکوائری پہلے ہی اس وقت کے آفیسر ACE لاڑکانہ نیاز حسین کھجڑ اور انگوٹھا آفیسر ACE دادو مھتاب حسین بھٹ ڈائریکٹر ACE سندھ کراچی کے حکم سے کر چکے ہیں جو دوسرے انگوٹھا آفیسر ایسی انکوائری رپورٹ جاری کرنے کے لیئے ڈسٹرکٹ آفیسر لاڑکانہ سے ملے جس نے انکار کیا جو اس انکوائری آفیسر نے زیادہ اپنی رپورٹ میں پہلی کی ہوئی انکوائری کا حوالہ دیتے ہوئے وہ ہی بات دوھرائی اور زیادہ کہا کے اس نے میری کمپلینٹ کے کاغذات اور روائیزڈ فائینل رپورٹ نمبر 3853 تاریخ 2008-12-30 اور رکارڈ کا اچھی طرح معائنہ کیا اور اسی نتیجے پر پہنچا کے جس پر پہلے کی گئی انکوائری کے آفیسر پہنچے تھے اور مذکورہ جوابداروں کو اس فراڈ میں برابر کا شریک اور زمیوار سمجھا اور زیادہ لکھا کے وہ پہلے کی گئی فائینل رپورٹ سے متفق ہیں اور ڈپٹی ڈائریکٹر ACE لاڑکانہ کو سفارش کرتے مذکورہ جوابداروں کے خلاف کیس داخل کرنے کی اجازت لینے کے لیئے یے منظورشدہ لیٹر ACC-II لاڑکانہ کے آگے رکھنے کے لیئے عرض کیا۔ جو میری کمپلینٹ کے حق میں ایسے قسم کی باربار انکوائری رپورٹ کے باوجود جوابدار گھنو خان جتوئی اور جوابدار معشوق علی جتوئی کی سیاسی اثر رسوخ اور پریشر کے لیئے تمام زیادہ وقت گزرنے کے باوجود مذکورہ جوابداروں کے خلاف کیس داخل کرنے کی اجازت نہ لی گئی ہے۔ اور دیئا گیا وقت ضایع ہوتا رہا۔ اور دیر کرنے کے مختلف بہانے ہوتے رہے۔ جو آخری تاریخ 2010-10-06 پر ڈائریکٹر ACE سندھ کراچی اپنی آفیس لیٹر نمبر 58-L/2007/4978-79 تاریخ 2010-10-06 تحت میرا میٹر مذکورہ جوابداروں کے خلاف کیس داخل کرنے کی اجازت لینے کے لیئے ACC-II لاڑکانہ کے آگے پیش کرنے کے لیئے ڈپٹی ڈائریکٹر ACE لاڑکانہ کو بھیجا جو ڈپٹی ڈائریکٹر ACE لاڑکانہ اپنی لیٹر نمبر DD/ACE/R-1130 تاریخ 2011-02-21 تحت یے میٹر ڈائریکٹر ACE سندھ کراچی سے یے کہہ کر واپس کر دیا کے جوابدار مسعود احمد بھگیو مختیارکار لاڑکانہ، ACC-I سندھ کراچی کا اختیار نیچے آرہا ہے اس کے لیئے یے میٹر ڈائریکٹر انکوائریز E & ACE-II کراچی کو انکوائری مکمل کرنے کے لیئے منایا گیا جس نے مجھے بلا کے تاریخ 2011-12-02 پر میرا بیان قلم بند کیا جہاں مینے وہ ہی حقیقت بیان کی اور اپنے بیان کے حمایت میں متعلقہ کاغذات پیش کیئے پر انکوائری پھر بھی مکمل نہیں ہوئی اور مذکورہ جوابداروں کے خلاف کیس داخل نہیں ہوسکا جو اس کے بعد کیس داخل کرنے کی ایسی اجازت ملنے میں مسلسل دیر ہونے پر مینے ایسی درخواست نمبر 2014/135 زیرقلم (6-I&III) 22 کپک عدالت جناب سیشن جج جسٹس آف پیس لاڑکانہ میں تاریخ 2014-04-03 پر انگوٹھا آفیسر اینٹیکرپشن لاڑکانہ میں دوسروں کے خلاف مذکورہ انکوائری جلدازجلد مکمل کرنے کے لیئے اور کیس داخل کرنے کا حکم جاری کرنے کے لیئے داخل کی جو معزز عدالت اپنے آرڈر تاریخ یے حکم جاری کیا کے

پھر تاریخ پر میں نے ایسی کرمنل مسلینیس ایپلیکیشن نمبر ھائے کورٹ آف سندھ سرکٹ کورٹ لاڑکانہ نے ایسے نوٹیس جاری کیئے جو ایسا جواب تاریخ پر عدالت میں جمع کروایا جس میں

جو مذکورہ درخواست سے اینٹیکرپشن ڈپارٹمینٹ میں کچھ گڑبڑ ہوئی جو ڈپٹی ڈائریکٹر ACE لاڑکانہ اپنے آفیس لیٹر نمبر 6886 تاریخ 2014-09-05 تحت میری مذکورہ درخواست کے ردعمل میں عدالت میں داخل کیا گیا اپنا جواب ڈائریکٹر ACE سندھ کراچی سے روانا کیا۔ جو ڈائریکٹر ACE سندھ کراچی ڈپٹی ڈائریکٹر ACE لاڑکانہ کا دوسرا لیٹر اور جواب اپنے آفیس لیٹر نمبر 58-L/2007/6645 تاریخ 2014-09-22 تحت چیئرمین انکوائریز میں ACE سے روانا کیئے جس میں اس چیئرمین E&ACE لیٹر نمبر SO (AC) E & ACE/2-794/2010 تاریخ 2010-08-12 کا حوالہ دیتے بتایا کے چیئرمین اس لیٹر تحت جوابدار مسعود احمد بگھیو اور دوسروں کے خلاف کیس داخل کرنے کے منظوری دی تھی اس سے زیادہ میرے لیئے لکھا کے چیئرمین E&ACE سے ملا لیٹر نمبر (AC)E&ACE/2-911/2011 SO تاریخ 2011-05-02 تحت میٹر ڈائریکٹر E&ACE-II سے ٹرانسفر کیا تھا، جو ابھی تک زیر التوا ہے۔ جو آخر میں ڈائریکٹر صاحب چیئرمین کو ھائے کورٹ میں داخل کیے ہوئے میری مذکورہ درخواست کو نظر میں رکھتے مذکورہ جوابداروں کے خلاف کیس داخل کرنے کا حکم حاصل کرنے کے لیئے میٹر ACC-II لاڑکانہ کے آگے پیش کرنے کی منظوری دینےکے لیئے عرض کیا، پر کوئی بھی نتیجہ نہیں نکلا جو تاریخ 2014-07-16 پے جوابدار موتی رام کے طرف سے ھائے کورٹ میں اس وقت کے سرطل آفیسر ACE لاڑکانہ شاہد حسین شاہانی میری کمپلینٹ نمبر 2007/168 کو واضع کیا ہے اور میرے مؤقف کی حمایت کرتے کورٹ کو بتایا ہے کے یے کمپلینٹ ACE لاڑکانہ کے انگوٹھا آفیس میں انکوائری نیچے تھی اور اس وقت کے انگوٹھا آفیسر انکوائری کرتے ایسے خوفیہ فائینل رپورٹ مذکورہ جوابداروں کے خلاف کیس داخل کرنے کی سفارش کرتے پیش کی جو ACC-I سندھ کراچی کے فیصلے کے لیئے زیر التوا ہے اور مذکورہ انگوٹھا کورٹ جوابدار موتی رام کے مذکورہ پٹیشن بابت زیادہ وضاحت کرتے اپنا مؤقف پیش کیا ہے کے جوابدار موتی رام خود کو میری مذکورہ کمپلینٹ میں ان کے خلاف لگائے الزام کے اس نے میری مذکورہ زمین فراڈ کر کے تبدیل کی ہے، بچاؤ کے لیئے یے پٹیشن داخل کی ہے اس لیئے انگوٹھا آفیسر کو یے پٹیشن رد کرنے کی التجا کی جو بعد میں جوابدار معشوق علی جتوئی تاریخ 2014-08-20 پر ہائے کورٹ لاڑکانہ میں داخل کروائی ، اپنی کرمنل مسلنیئس ایپلیکیشن نمبر S-189/2014 میں دوسروں کے خلاف داخل کروائے میری مذکورہ FIR کی کواش کرنے کے لئے اپنے مؤقف کی حمایت میں میری مذکورہ کمپلینٹ نمبر 2014/168 کے جناب محمد کاشف صدیق ڈائریکٹر انکوائریز PS/DE-II/245/2011 تاریخ 2013-1-22 غیر قانونی طریقے سے اس کی فوٹو کاپی چوری کر کے صفحہ نمبر 31 سے 44 Anes-“b” منسلک کی جو جوابدار بدرالدین ساریو اپنے موجودہ زیر جواب بیان کے ذریعے اس کیس کے تفتیشی آفیسر غلام مصطفی سانڈانو کو اپنے گناھ سے بچنے کی اور خود کو بے گناھ ثابت کرنے کی کوشش کرتے اس خوفیا رپورٹ کو ہتھیار طور استعمال کرکے جوابدار گھنو خان جتوئی، جوابدار معشوق علی جتوئی سے محیہ کرنے اور ان کے کہنے پر ان کو دوسرے جوابدار اور خانگی جوابداروں کو مذکورہ گناھ سے بچانے اور بے گناھ ثابت کرتے پیش کی جس کے پیش کرنے کا ایسا کوئی بھی مشیر نامہ تیار نہیں کیا گیا جس کی قانون میں کوئی بھی اہمیت نہیں ہے پر تفتیشی آفیسر جوابدار گھنو خان جتوئی اور جوابدار معشوق علی جتوئی کی سیاسی اثر رسوخ اور پریشر کے لیے اس رپورٹ کے متعلقہ آفیسر سے بغیر تصدیق کروانے کے، کیس میں شامل کیا اور ان کو اہمیت دیتے میرے کیس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی اور مذکورہ جوابداروں کو بچانے کے لیے ہتھیار طور استعمال کیا۔ جو مذکورہ انکوائری رپورٹ کی کاپی مجھے جوابدار معشوق علی جتئی کے اوپر ذکر کیے درخواست کی کاپی کے ساتھ ہائے کورٹ کے نوٹیس کے ساتھ ملی۔ جو وہ کاغذپڑھنے پر مجھے پہلی بار پتہ چلا کے میری مذکورہ کمپلینٹ کی ایسی متعلقہ آفیسر نے جاری کی ہے، جو میری جانچ کرنے پر خبر ملی کے یے رپورٹ جوابدار گھنو خان جتوئی اور جوابدار معشوق علی جتی کی سیاسی ن اثر رسوخ اور پریشر کی وجہ سے جاری کی گئی ہے، اور جان بوجھ کر غیر قانونی طرح مجھے اس انکوائری رپورٹ سے بے خبر رکھا گیااور جوابدار گھنو خان جتوئی اور جوابدار معشوق علی جتوئی اور دوسرے خانگی اور سرکاری جوابداروں کو بچانے کے لیے ناصرف ایسی رپورٹ جاری کی گئی، پر ان کی فوٹو کاپی غیرقانونی طریقے سے جاری کی گئی، تاکے وہ اس رپورٹ سے خود کو اور دوسروں کو، اپنے گناھ سے بچنے اور دوسرے جوابداروں کو بچانے کے خاطر ہتھیار طور استعمال کر سکیں اور اپنے خلاف چلتے میرے کیسوں اور مذکورہ FIR کو نقصان پہنچا سکیں، جو یے جوابدار ہر جگہ خود اور دوسروں سے استعمال کروارہے ہیں اور ان کا غلط اور ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ جس کا مثال میں اوپر پیش کر چکا ہوں جو ناصرف اتنا، بلکہ جوابدار معشوق علی جتوئی اپنی مرضی مطابق تیار کروائی گئی مذکورہ انکوائری رپورٹ اپنے ایک دوسرے ہائے کورٹ لاڑکانہ تاریخ 2014-8-22 پر صفحے نمبر 157 سے 170 درخواست نمبر S-834/2014 کے صفحے نمبر 157 سے 170 بطور Anex-G پیش کی جو مجھے آئینی درخواست کی کاپی کے ساتھ ہائے کورٹ نوٹیس سے ملی۔ جو مذکورہ رپورٹ بابت میں پہلے بھی ہائے کورٹ میں اور اوپر ذکر کی گئی درخواستوں کے جواب اپنے مؤقف اور اعتراض پیش کرچکا ہوں اور اب بھی اس کے بابت میرا یے کہنا ہے کے میں نے کرپشن پیش کی ہے، اس لیے جوابدار آفیسروں کے خلاف E&ACE قوانین کے تحت کیس داخل نہیں کیا جا سکتا، جو مطلب یے نہیں ہے کے جوابدار گھنو خان جتوئی اور روینیو عملداروں کا بے گناھ تصور کیا جائے، خصوصا˝ جب انکوائری آفیسر کے طرف سے کیس بند کرنے کی سفارش کے باوجود متعلقہ اختیاری کی طرف سے کیس کو بند نا کرنا اور جاری رکھنا۔ میرا زیادہ کہنا ہے کے مذکورہ انکوائری آفیسر کی طرف سے میرے باربار عرض کرنے کے باوجود میری دستخط اور ہاتھ کی لکھت، مذکورہ جعلی پاور آف اٹارنی کی اصل کاپی پر کی ہوئی میری جعلی دستخط اور لکھت سے تصدیق نیشنل فارینزک سائنس لیبارٹری اسلام آباد سے کروانے کے علاوہ مذکورہ انکوائری رپورٹ میں کیس بند کرنے کی سفارش جو بے قانونی اہمیت اور حیثیت نہیں ہے اور انکوائری آفیسر کی ایسی رپورٹ جاری کرنے پر اس کے جوابدار گھنو خان جتوئی اور سرکاری جوابداروں کی طرف سے جانبداری ظاہر ہو رہی ہے اور انکوائری آفیسر کی طرف سے ایسے خفیہ رپورٹ کی کاپی جوابدار گھنو خان جتوئی کو مھیہ کرنے اور اس بابت مجھے نقصان پہچانے کا ارادہ ظاھر کر رہا ہے جو جوابدار بدرالدین ساریو کی مذکورہ رپورٹ اس کیس کی تفتیشی آفیسر کے پاس پیش کرنے اور اس بابت دیئے گئے بیان بدنیعتی پر سنایا گیا ہے، جس کی وضاحت میں نے ایسی طرح بیان کی، پھر تاریخ 2014-08-27 پر P.S SHO دڑی اپنے آفیس لیٹر نمبر CR-69/2014 تاریخ 2017-8-27 تحت انچارج فارنیک سائنس لیبارٹری لاڑکانہ کو اپنی دستخط اور لکھت کی مذکورہ جعلی پاور آف اٹارنی پر کی گئی میری جعلی دستخط اور لکھت سے کرنے کے لیے گذارش کی پھر تاریخ 2014-8-28 پر اس کیس کےتفتیشی آفیسر جوابدار موتی رام بیٹا صدورو مل ھندو رہائش کرما باغ کے بغیر انٹروگیشن کرنے کی اور تمام ضروری سوالات بھاگنے کی، جوا بدار گھنو خان جتوئی اور جوابدار معشوق علی جتوئی کے سیاسی پریشر کے لیئے اور میرے کیس کو نقصان پہچانے، بیان قلمبند کیا، جس میں اس نے مکمل طور جھوٹ بولنے اور غلط بیانی سے کام لیتے، اس گناھ میں شامل اپنے ساتھی جوابدار گھنو خان جتوئی اور جوابدار معشوق علی جتوئی کے کہنے پر بیان کیا کے وہ میرے پاس ملازم تھا اور میں انڈیا جا رہا تھا اور میں نے یے مذکورہ زمین جوابدار لعل بخش مگریو کو بیچی تھی اور زمین کا پاور آف اٹارنی اس کو دیا اور اس نے میرے کہنے پر یے زمین جوابدار لعل بخش مگریو کو لکھ کر دی اور اب زمین کا ریٹ بڑھ جانے کے وجہ سے میں لالچ میں آگیا ہوں اور اس کو پریشرائیز کر رہا ہوں کے وہ بیان بدلے کے میں نے اس کو پاور آف اٹارنی نہیں دیا ہے اور میں نے اس کے خلاف جھوٹے کیس داخل کروائے ہیں اور اب بھی کروا رہا ہوں اور ایسا کیس فرسٹ سینیئر سول جج لاڑکانہ کی کورٹ میں کیس 2014/08 چلتاہوا ہے، اور ایسا آرڈر ہائے کورٹ کے ہیں۔ جو C.P نمبر 2007/351 اور 07/562 اور دوسروں میں ہائے کورٹ میری پٹیشنیں رد کرتے معاملے کو سول کورٹ میں حل کرنے کا حکم دیتے فرمایا کے پاور آف اٹارنی کی تصدیق جو واحد فورم سول کورٹ ہے، جو ثبوتوں کو دیکھتے اپنا فیصلہ سنائے گی، جو جوابدار موتی رام نے اپنے بیان میں جھوٹ بولتے میرے اوپر الزام لگایا کے میں سول کورٹ میں کیس چلانے سے گھبرا رہا ہوں میں نے اس کے اوپر جھوٹی FIR کرواکے ہراساں کر رہا ہوں۔ اور اس FIR کے خلاف ہائے کورٹ میں کواشمینٹ کی درخواست دی ہے، جو چل رہی ہے۔ اور میرے اوپر حراسمینٹ کا کیس سیشن کورٹ لاڑکانہ میں کروایا ہے، جوابدار موتی رام نے زیادہ اپنے بیان میں میرے اوپر جھوٹے اور بے بنیاد الزام لگاتے، غلیظ اور توہین آمیز زبان استعمال کرتے کہا کے میں فراڈی اور جھوٹا انسان ہوں اور میں نے جھوٹی چیکیں دے کر زمین اپنے نام کروائی اور مالک کو پیسے نہیں دیئے تھے۔ اور جھوٹی چیکیں دینے پر جوڈیشل مئجسٹریٹ نے مجھے جیل بھیجا، اس لیے میری داخل کروائی اس جھوٹی فریاد کو نکال دیا جائے، کیونکہ ہائے کورٹ کی کواشمینٹ کے کیس کے فیصلے تک کاروائی کو روکا جائے۔ جوابدار موتی رام نے زیادہ بے بنیاد بات کرتے کہا کے میں نے 13 سال کے پیرڈ گزرنے کے بعد یے کیس داخل کروایا ہے۔ جو جھوٹے ہونے کا ثبوت ہے، جو جوابدار موتی رام کے اس جھوٹے، بے بنیاد، توہین آمیز اور غیر قانونی اور قانون کی الٹ قلمبند کیے گئے بیان کے جواب میں میرا یے کہنا ہے کے وہ میرے پاس کبھی بھی ملازم نہیں رہا ہے اور میرا اور میرے خاندان کے کسی بھی فرد سے جوابدار موتی رام کا کبھی بھی کسی سے بھی تعلق یا واسطہ نہیں رہاہے، اتنی قدر کے میں اس کو پہچانتا تک نہیں تھا اور June 2014 سے پہلے اس کو دیکھا بھی نہیں تھا، اس لیے جوابدار کا یے کہنا کے وہ میرا ملازم تھا بلکل جھوٹی اور بے بنیاد بات ہے ، جس کا حقیقت سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے۔ اور اب مجھے پتہ چلا ہے کے وہ کرما باغ لاڑکانہ میں جنرل اسٹور چلاتا تھا اور اس بات کی ثابتی مذکورہ جعلی پاور آف اٹارنی میں اس کا کاروبار بزنس مین طور لکھا ہونا اور میرے ملازم طور لکھا نا ہونے سے بھی ملتا ہےاور جوابدار گھنو خان جتوئی اور جوابدار معشوق علی جتوئی کے کہنے پر اور اس گناھ سے خود کو اور دوسرے جوابداروں کو بچانے کے خاطر اور مذکورہ جھوٹی اور جعلی پاور آف اٹارنی کو قانونی ثابت کرنے کی کوشش کرتے بیان کی ہے۔ جو جوابدار موتی رام کے اس بیان اور دعویٰ کو میرے گواھ احمد علی کھکھرانی اور مجیب الرحمٰن سانگی میرے بیان زیرقلم 161 کپک میں رد کر چکے ہیں اور جوابدار موتی رام سے میرے یا میرے خاندان کے کسی فرد سے تعلق نا ہونے والے بیان کی تائید اور حمایت کر چکے ہیں ، اس لیے جوابدار موتی رام کے ایسے دعویٰ کا کوئی بھی بنیاد اور جواز نہیں ہے۔ جو جوابدار موتی رام کا زیادہ یے کہنا کے میں انڈیا جا رہا تھا اور مذکورہ زمین جوابدار لعل بخش مگریو کو بیچی تھی، اس لیے میں نے اس کو یے زمین جوابدار لعل بخش مگریو کع لکھ کر دینے کے لیئے پاور آف اٹارنی دیا، بلکل جھوٹ، بے بنیاد اور غلط ہے اور بدنیتی پر مبنی ہے۔ یے حقیقت ہے کے میں ہر سال انڈیا جاتا رہتا ہوں پر یے بلکل جھوٹ ہے کے میں نے یے زمین جوابدار لعل بخش مگریو کو بیچی تھی، اور جوابدار موتی رام کو ایسا کوئی پاور آف اٹارنی دیا تھا پر جوابدار کی ایسی کوئی بھی سیل ایگریمینٹ رکارڈ پر موجود نہیں ہے، اوپر دیے نام والے خانگی اور سرکاری موتی رام دوسرے جوابداروں سے ملی سازش کرکے، ان کی مدد سے جوابدار گھنو خان جتوئی اور جوابدار معشوق علی جتوئی کے کہنے پر اور ان کی مدد سے آخر کار ان کو فائدہ دینے اور میری مذکورہ زمین فراڈ سے، جعلسازی سے اور جعلی اور غیرقانونی جھوٹے کاغذوں کے بنیاد پر ہڑپنے میں ان کو بنیاد بنا کے دینے میں مدد کی، جعلسازی کر کے فراڈ کر کے مذکورہ جعلی اور جھوٹا پاور آف اٹارنی اپنے نام پر غیر قانونی طرح میری جھوٹی دستخط اور لکھت سے تیار کیا اور کروایا، جو قانونی تقاضے کے بلکل الٹ ہے، جو سرسری نظر سے دیکھنے میں ہی بلکل جھوٹ اور جعلی لگ رہا ہے۔ پر اگر ان کی گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو یے نظر آئے گا کے یے جعلی پاور آف اٹارنی قانونی ضرورتوں کے مطابق حد کے متعلق سب رجسٹرار کے پاس رجسٹرڈ ہونے کی الٹ اسسٹنٹ مختیارکار ڈوکری، جس کی حد میں مذکورہ زمین نہیں آتی، جو ناصرف اٹیسٹ کی گئی ہے، جو ایسی جھوٹی اور جعلی اور غیر قانونی طرح جاری ہوا اور مالیت فیس سے تمام کم مالیت کی فیس کے دستاویز پر بناہوا ہے، جس کی ٹریزری آفیس میں جاری کیا ہوا آفیسر کی دستخط نام، تاریخ اور مہر لگائی ہوئی نہیں ہے اور اسٹامپ وینڈر کا نام، دستخط بیچنے کی تاریخ اور مہر لگائی نہیں ہے اور جوابدار موتی رام کی دستخط سے پاور آف اٹارنی نہیں لی گئی ہے۔ جب کے مذکورہ دستاویز پر ان کا نا م بطور خریدار لکھا ہے پر ان کی دستخط بھی نہیں کی گئی اور نا ہی جوابدار موتی رام کی شناختی کارڈ کی کاپی منسلک ہے۔ اور ناہی میرے شناختی کارڈ کی کاپی لگی ہے اور فقط میری ایک تصویر لگی ہوئی ہے، جو میرے کسی دوسرے کاغذ مثلا مختیارکار آفیس میں لگی میرے پاس بوک کی دوسری کاپی سے اتار کے اس جعلی پاور آف اٹارنی پر لگائی گئی ہے-۔ یے بھی حقیقت ہے کے جعلی پاور آف اٹارنی نا ہی شاہدوں کے شناختی کارڈوں کے نمبر لکھے ہیں اور ناہی ایسی کاپیاں منسلک ہیں اور اٹیسٹ کرتے آفیسر کو نوٹ کہ اس جنرل پاور آف اٹارنی کی لکھت اور شرائط پاور دیتے کو پڑھ کر سنائی گئی یا اس نے خود پڑھی، ان کو سچا اور درست تسلیم کر کے میرے سامنے دستخط کی، لکھا ہوا نہیں ہے اور جوابدار موتی رام بابت یے لکھا ہوا نہیں ہے کے وہ میرے اٹارنی طور ایسی ذمیداریاں قبول کر رہا ہے۔ اٹیسٹ کرتے آفیسر کی دستخط اور مہر جھوٹی اور جعلی ہے، ان کی دستخط بابت اس بات کی تصدیق کرتے جعلی پاور آف اٹارنی میں دکھائے گئے آفیسر مسعود احمد بگھیو اس کیس کی تفتیشی آفیسر کے پاس میرا بیان تاریخ 2014-9-10 قلمبند کرواتے کہا کے مذکورہ پاور آف اٹارنی پر ان کی دستخط نہیں ہے اور یے دستخط جھوٹی ہے اور کسی نے اس کی دستخط کرنے کی کوشش کی ہے، جو اس بارے میں زیادہ وضاحت مذکورہ آفیسر کی اس بیان کا ذکر کرتے وضاحت مذکورہ آفیسر کے اس بیان کا ذکر نیچے کروں گا۔ باقی جعلی پاور آف اٹارنی پر لگی جھوٹی مہر بابت میرا کہنا ہے کے اس مہر کی جھوٹی ہونے کی تصدیق مختیارکار ڈوکری P.S SHO دڑی لیٹر نمبر CR.69/2014 تاریخ 2014-9-24 تحت مانگے مختیارکار آفیس ڈوکری کے سال 2001 کے اسٹیمپ کے سیل جو سیمپل اور تصدیق کا جواب اپنے لیٹر نمبر 1478 تاریخ 2014-10-1 تحت دیتے کی ہے، جس میں اس نے مختیار کار روینیو ڈوکری کی رائونڈ اسٹیمپ سیمپل طور لگاتے لکھا ہے کے سال 1999 سے 2014-8-31 تک ان کا آفیس میں یے رائونڈ اسٹیمپ استعمال نیچے تھا۔ جو اس اسٹیمپل پے سیمپل کی مذکورہ جعلی پاور آف اٹارنی پر لگاہوا اسٹیمپ سے اچھی طرح ظاہر ہو رہا ہے کے دونوں میں بہت فرق ہے، ظاہر کر رہا ہے کے یے اسٹیمپ جھوٹی ہے، جو مذکورہ جوابداروں نے غیر قانونی طرح سے اور فراڈ کرتے تیار کی ہے اور استعمال کی ہے، جو یے حقیقت ہے کے مذکورہ جعلی پاور آف اٹارنی پر میری لکھت اور تاریخ لکھنے کے طریقے سے بلکل الگ اور مختلف ہے اور کسی تمام کم یافتہ تعلیم شخص کی لکھت اور تاریخ لکھنے جیسی ہے، جب کے میں ایک اعلٰی تعلیم یافتہ شخص ہوں۔ اور کبھی بھی میرے ہاتھ کی لکھائی اور تاریخ لکھنے کا طریقہ نہیں رہا ہے، اس لیے یے حقیقت اس پاور آف اٹارنی کو جھوٹا اور جعلی ثابت کر رہا ہے۔ ویسے بھی میں اوپر کہ چکا ہوں کے میرا اس جوابدار سے کوئی بھی تعلق یا واسطہ نہیں رہا ہے اور میں اس کو پہچانتا بھی نہیں، اس لیے میں مذکورہ پاور آف اٹارنی کیس دینے اور اپنی زمین جوابدار لعل بخش مگریو کو لکھ کر دینے کی ہدایت کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یے بھی حقیقت ہے کے مذکورہ زمین میری اور میری بیوی بھگونت دیوی کی ملی اور ورھاست کی ہے، اس لیے قانون موجب ایسی ملی اور نا ورھاست کی گئی زمین کا کوئی بھی ایک حصیدار مالک اکیلے طور پے زمین بیچ نہیں سکتا اور نا ہی ان کا کسی کی اٹارنی پاور دے سکتے ہیں، جیسے مذکورہ ہماری زمین کے سلسلے میں کیا ہے، اس لیے یے حقیقت بھی مذکورہ پاور آف اٹارنی کو غیرقانی ظاہر کر رہا ہے، جو جوابدار موتی رام کی اس بات کے میں نے اس کو مذکورہ زمین جوابدار لعل بخش مگریو کو لکھ کر دینے کے لیے کہا تھا، کوئی بھی ثبوت یا گواھ موجود نہیں ہے اور نا ہی ایسا کوئی ذکر مذکورہ جعلی پاور آف اٹارنی میں کیا ہے اور نا ہی جوابدار موتی رام کے ایسے بیان کو مکمل طور رد کرتے ہیں، جو جوابدار موتی رام کا زیادہ یے کہنا کے زمین کے ریٹ بڑھ جانے کے لیئے میں لالچ میں پڑ گیا ہوں اور اس کو پاور آف اٹارنی نا دینے والے بیان دینے کے لیے پریشرائز کر رہا ہوں، بلکل بے بنیاد جھوٹ پر بندھا اور بدنیعتی پر مبنی ہے اور جوابدار گھنو خان جتوئی اور جوابدار معشوق علی جتوئی کے کہنے پر بیان کیا گیا ہے، جب کے حقیقت یے ہے کے میں جوابدار موتی رام کو پہلے دیکھا ہی نہیں تھا اور کوئی بھی پاور آف اٹارنی دیا ہی نہیں تھا اور کیس اس سے دستبرادر ہونے کے لیے پریشرائیز کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور جوابدار موتی رام کا یے کہنا جھوٹ اور غلط ہے کے میں نے اس کے اوپر جھوٹے کیس داخل کرائے ہیں اور ابھی اور ابھی بھی کروا رہا ہوں ، پر حقیقت یے ہے کے مجھ پر بھی جھوٹے کیس داخل کروائے پر جو بھی کیس داخل کروائے ہیں وہ بلکل حقیقت پر مبنی ہیں، یہاں تک کے فرسٹ سینٹر سول جج لاڑکانہ کے کورٹ میں سول کیس 2014/8 کے چلتے ہونے کا بلکل اس کورٹ میں چلتا ہے، پر جوابدار موتی رام اس کیس میں تعلیمات باوجود شامل نہیں ہے اور ناہی اپنا جواب دعویٰ سے داخل کروایا ہے، کیونکہ وہ سمجھ رہا ہے کے مذکورہ کورٹ میں اس کا جعلسازی سے تیار کیا گیا پاور آف اٹارنی جھوٹا اور جعلی ثابت ہوگا، اس لیے وہ اس کا سامنہ کرنے سے پرھیز کر رہا ہے اور گھبرا رہا ہے، جو اس کا یے کہنا کے میری مذکورہ پٹیشنیں معزز عدالت عالیہ لاڑکانہ نے رد کی ہیں بلکل جھوٹ ہے، پر یے حقیقت ہے کے عدالت مجھے سول کورٹ میں ایسا کیس داخل کرنے کا حکم کیا، جو میں نے ایسا کیس ذکر کیا عدالت میں داخل کیا جو چل رہا ہےباقی جوابدار موتی رام کا یے کہنا ہے کے میں سول کورٹ میں مذکورہ کیس چلانے سے گھبرا رہا ہوں بلکل غلط اور بے بنیاد ہے حقیقت میں اس کیس میں کچھ درمیانی درخواستیں جن میں اسٹے آرڈر جاری کرنے اور توہیں عدالت کی درخواستیں چلتی ہوئی ہیں۔ جن کا مین کیس چلنے سے پہلے فیصلہ کرنا ضروری ہے، پر جوابدار پارٹی ان درخواستوں کو چلانے سے گبھرا رہا ہوں جس کی وجہ سے کیس کو ختم کرنے میں دیر ہو رہی ہے، جبکہ جوابدار موتی رام کے اس کیس میں شامل ہونے پر ایسا بیان ظاہر کر رہا ہے کے اس نے یے بیان جوابدار گھنو خان جتوئی اور جوابدار معشوق علی جتوئی کے کہنے پر دیا ہے جو ان کی آپس میں ملی سازش ظاہر کرتا ہے، زیادا جوابدار موتی رام کا یے کہنا ہے کے میں نے اس کے اوپر یے جھوٹی FIR د اخل کرواکے ڈرایا ہے اور اس FIR کی کواشمینٹ کی ایسی درخواست اس ہائے کورٹ میں داخل کروائی ہے، جو چل رہی ہے، کے جواب میں میرا کہنا ہے کے ناہی میں نے اس کے خلاف جھوٹی FIR داخل کروائی ہے اور نا ہی اس کو ڈرایا ہے، پر میں نے مذکورہ جوابداروں کی طرف سے میرے خلاف جعلسازی اور فراڈ کے گناھ خلاف قانون مطابق، ان کے خلاف اور سچا اور حقیقی کیس داخل کروایا ہے اور سول کیس کے ساتھ ساتھ کرمنل کیس داخل کروایا ہے اور ایسے فیصلے آنے سے پہلے اس کیس کو جھوٹا کہنے پر عدم اعتماد کے برابر ہے، اس لیے جوابدار کا یے کہنا بے بنیاد ہے اور قانونی طریقے سے داخل کیے گئے کیس کو حراسمینٹ کہنا خود جوابدار کی طرف سے غیرقانونی ذہن رکھنا ظاہر کر رہا ہے، جب کبھی جوابدار کے کواشمینٹ کی درخواست پر عدالت کا فیصلہ آنے سے پہلے اس کی مذکورہ FIR کو جھوٹا کہنا، وقت سے پہلے فتویٰ جاری کرنے کے مترادف ہے۔ جوابدار موتی رام کا یے کہنا بلکل غلط اور بے بنیاد ہے کے اس نے میرے خلاف سیشن کورٹ لاڑکانہ میں حراسمینٹ کا کیس داخل کروایا ہے، پر حقیقت یے ہے کے جوابدار موتی رام، جوابدار گھنو خان جتوئی اور جوابدار معشوق علی جتوئی کے کہنے پر اس کیس سے اور دوسرے کیسوں پر سے ہاتھ اٹھانے کے لیے مجھے پریشرائیز کرنے کی خاطر ناصرف جوابدار موتی رام خود پر اپنے بیٹے ہریش کمار کے ذریعے میرے ، میری بیوی اور میرے بیٹے راکیش کمار اور میرے ھاری، کمدار اور چوکیدار کے خلاف جھوٹی FIR داخل کروانے کے لیے عدالت جناب سیشن جج لاڑکانہ میں زیرقلم 22-A&B کپک تحت اوپر ذکر کی گئی درخواستین داخل کروائیں جو جوابدار موتی رام اور اس کے بیٹے کے خلاف ثابت ہوئی جو جوابدار کا زیادہ میرے خلاف توہین آمیز اور دل دکھانے والے الفاظ استعمال کرتے یے کہنا کے میں فراڈی اور جھوٹا شخص ہوں اور جھوٹی چیکیں دے کر زمین اپنے نام لکھوائی ہے اور مالک کو پیسے نہیں دیئے ہیں، اس لیے عدالت نے مجھے جیل بھیجا ہے، بلکل جھوٹ، بے بنیاد اور حقیقت کے بلکل الٹ ہے اور جوابدار گھنو خان جتوئی اور جوابدار معشوق علی جتوئی کے کہنے پر بیان کیا گیا ہے، جب کے حقیقت یے نہیں ہے کے میں فراڈی ہوں اور نا ہی جھوٹا ہوں پر ایک عزتدار قانون کا پابند، امن پسند، اعلٰی تعلیم یافتہ اور ڈاکٹری پیشے سے وابسطہ شہری ہوں اور میں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی جھوٹ نہیں بولا ہے اور نا ہی کسی سے کوئی فراڈ کیا ہے، اس بارے میں تو میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ میں نے کبھی بھی کسی شخص کو جھوٹی چیک نہیں دیے ہیں اور ناہی اس کے آدھار پر زمین اپنے نام لکھوائی ہے اور نا ہی اس بنیاد پر جیل جا چکا ہوں۔ پر حقیقت یے ہے کے میں نے مذکورہ زمین جوابدار گھنو خان جتوئی سے اور دوسرے مالک